mein kis ke hath pe apna lahu

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو؟؟؟

تحریر: کامران شیخ۔۔

دادا جان تم رات کےوقت یہاں کیوں آئے، کسے تاڑنے آئے ہو؟؟دادی سے تمہاری شکایت کرنی پڑیگی،بہت بگڑ گئےہو،،،یہ بات میں نےتقریبا دس روز قبل جناح اسپتال کی ایمرجنسی میں قاضی عمران احمد کوکہی، میں اپنے ایک رپورٹردوست نعمان کیانی کےساتھ ایک کام سےجناح اسپتال گیا تو شعبہ حادثات میں قاضی صاحب سے ملاقات ہوئی، میں انھیں دادا جان کھ کر مخاطب کرتا تھا اور وہ بڑاخوش ہوکر ملنے والوں کو کہتے تھے کہ یہ میرا نافرمان پوتا ہے   میرے سوال کے جواب میں وہ کہنے لگے کہ یار تھوڑی طبیعیت خراب تھی تو میں نے سوچاکہ یہاں دکھاتا چلوں پھر وہ کچھ دیر تک ساتھ کھڑے رہے اور میں میڈیکولیگل آفس چلاگیا، ابھی دو روز پہلے میں نے انھیں ایک خبرکے سلسلے میں فون کیا تو انھوں نے ریسیو نہیں کیا، میں نے دوبارہ کال کی انھوں نےپھر ریسیو نہیں کی، کچھ دیر بعد انھوں نے مجھےفون کیا تو میں نے کہا کہ کیا ڈرامے بازی ہے، میری کال کیوں نہیں اٹھارہے تھےتو انھوں نے جواب دیا کہ یار موبائل کہیں ادھر ادھر رکھا تھا طبیعیت ٹھیک نہیں ہے، انکی آواز سے بھی محسوس ہورہاتھا کہ وہ تکلیف میں ہیں میں نے کہا کہ آپ ڈاکٹرکے پاس گئے؟ کہیں دکھایا تو کہنے لگے کہ یار ڈاؤ اسپتال والوں نے بیوقوف بنا رکھا ہےچھ روز ہوگئے کورونا ٹیسٹ کرائے ہوئے لیکن انھوں نے ابھی تک رپورٹ نہیں دی، ذرا ان سے پوچھو تو صحیح ۔۔۔۔میں نے انھیں کہا کہ آپ اپنا خیال رکھیں میں بھی پتہ کرتاہوں، گذشتہ روز معلوم ہوا کہ انکا ٹیسٹ مثبت آیا ہے اور طبیعیت خراب ہونے پر انھیں ڈاؤ اسپتال میں لیجایاگیا ہے میں نے انکو کال کی تو بیٹے نے ریسیو کی کہنے لگا کہ طبیعیت ٹھیک نہیں اور وینٹی لیٹر کی ضرورت ہے اور آج صبح افسوسناک اطلاع ملی کہ قاضی عمران نے ہمیں ہمیشہ کےلئے چھوڑدیا، صدمہ تو بہت ہوا کہ ایک خوش مزاج،ایماندار شخص جس سے روز ہی رابطہ رہتا تھا وہ دنیا سے چلاگیا، لیکن اس نظام کےلئے کئی سوالات چھوڑ گیا، وہ معاشی مشکلات کا شکار تھے، تنخواہ اتنی نہیں تھی کہ مشکلات سے نکل سکتے،پھر مالک مکان نے بھی تنگ کررکھا تھا اور وہ مکان بھی تبدیل کرنا چاہتے تھے،

لیکن جس اسپتال انھیں لیجایا گیا یعنی ڈاؤ یونیورسٹی اسپتال(اوجھاکیمپس) اس کانام تو بہت مشہور ہے لیکن کورونا کی صورتحال میں ڈاؤ اسپتال کاحال کی تبدیل ہوچکاہے، میں نے کچھ دنوں پہلے ایک خبر چلائی کہ ڈاؤ اوجھا کیمپس کے کورونا وارڈز، ایچ ڈی یو، شعبہ حادثات کی صورتحال یہ ہے کہ مریض کورونا سے نہیں بلکہ یہاں دی  جانیوالی ذہنی اذیت کےباعث موت کے منہ میں جارہے ہیں، اس خبر کے بعد ادارے میں میری سوچ سے کہیں زیادہ کھلبلی مچی، متعلقہ افسران نے انکوائری کمیٹی بنادی کہ کورونا وارڈ کی ویڈیو کس نے”لیک” کی ۔۔لیکن جو خبر میں نے چلائی اس سے کہیں زیادہ وہاں بگاڑ موجود تھا میرے ذرائع اس بات کی تصدیق کررہے تھے کہ کامران بھائی یہاں کورونا کے مریض کو، کوئی پوچھنے والانہیں ہے، جو بزرگ مریض یہاں داخل ہیں انھیں اسٹاف دیکھنے کو ہی تیار نہیں ایسے افراد جنھیں عام طور پر بھی چلنے پھرنے میں مشکلات کا سامنا رہتا ہےانکو یہاں لانے کے بعد ان کے حال پر ہی چھوڑا جارہاہے، کیونکہ کورونا مریض کے ساتھ کوئی اٹینڈنٹ تو ہوتا نہیں لہذاٰ عملہ بھی اسقدر خوفزدہ ہے کہ مریض کو دیکھنا ہی نہیں چاہتا، مریض کھانا بھی لایا جاتا ہے تو دور رکھ دیا جاتا ہے، اگر کسی مریض کو نرس کی ضرورت ہو تو دور دور تک کوئی دیکھنے والا موجود نہیں ہوتا، ایک اور شرمناک بات یہ سامنے آئی کہ کورونا کے ٹیسٹ کروانے کےلئےجو لوگ ڈاؤ جارہے ہیں تو لائن میں لگ کر سماجی فاصلہ اور ایس او پی کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں اور پھر وہاں موجود سیکورٹی گارڈز کا رویہ انتہائی تضحیک آمیز ہوتا ہے اور جسے جلدی ہواور لائن میں نہ لگنا چاہےتو وہ گارڈکو دوسو یا تین دوروپے دیکر اپنا ٹیسٹ جلدی کرالیتا ہے، بلکہ گارڈز آکر مریضوں سےپوچھ رہے ہوتےہیں کہ آپکو کیا علامات ہیں۔اور ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ کئی لوگوں کے سیمپلز تو گارڈز نے خود ہی لے لئے اور کوئی پوچھنےوالا نہیں، ایک اور انکشاف یہ ہوا کہ ایک دوست اپنی اہلیہ کا “چیسٹ ایکسرے” کرانےڈاؤ گئے تو انھیں متعلقہ شعبے میں موجود عملے نے گاؤن نما کپڑے پہننے کےلئے دیئے کہ آپ یہ پہن لیں(کیونکہ انھوں نے بٹن والی شرٹ پہنی ہوئی تھی) انھیں جو گاؤن دیا گیا وہ صبح سے کئی درجن افراد پہن چکے تھے وہی تھما دیا گیا، انکے شوہرنے اس بات پر سخت اعتراض کیا کہ یہ کیا مذاق ہے کہ ایک طرف کورونا وائرس پھیلنے کے خدشے پیش نظر احتیاط کا کہا جارہاہے اور دوسری جانب آپ ایک ہی گاؤن  کئی لوگوں کو پہنا رہے ہیں تو عملے نے جواب دیا کہ ہمارے پاس ایک ہی گاؤن ہے ان صاحب نے باقاعدہ تحریری شکایت انتظامیہ کو جمع کرائی، ان سے بھی جب گفتگو ہوئی تو بتایا کہ یہاں پر کورونا کے مریضوں سے جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جارہاہے،

میری خبر چلنے کے بعد ہلچل مچی اور افسوس اس بات کا ہے کہ ہلچل اسلیئے نہیں مچی کہ سنگین مجرمانہ غفلت یہاں برتی جارہی ہے بلکہ اسلیئے شور مچا اور کمیٹی بنی کہ اندر کی ویڈیو صحافی کو کس نے دی۔۔۔۔۔۔۔خبر کے بعد سنا ہے کہ کچھ صورتحال میں بہتری تو آئی ہے، مگربیشک موت برحق ہے اورہر کسی کا وقت مقرر ہے مگر  قاضی عمران احمد کا اسطرح ہم سے جدا ہوجانا صحافتی نظام، قلیل تنخؤاہ ، ایماندار لوگوں کےلئے کوئی مواقع نہ ہونااوربے رحم شعبے کے بدترین زوال کی نشاندہی کررہاہے، اس ہی طرح عرفان بھائی(نیوزون ) بھی کئی گھریلو مسائل دل میں دبائے مسکراتے ہوئے دنیا چھوڑکر جاچکےہیں لیکن اب بھی یہ شعبہ مسائل سے نکلنے کی بجائے ہر گذرتے دن کے ساتھ تنزلی کی جانب بڑھ رہاہے، دوسری جانب ہمارے سندھ کا طبی نظام جو ڈاکٹر فرقان الحق سمیت کئی مسیحاؤں اورعملے کو موت کے گھاٹ اتار چکا ہے اسکے باوجود  بھی سرکاری اسپتال عدم سہولیات کا شکار ہیں قدم قدم پر مریضوں کےلئے ذلالت موجود اور ہتک آمیز رویئے کا سامناہے، قاضی عمران کو وینٹی لیٹرکی ضرورت تھی جو انھیں کافی دیر تک نہیں مل سکاتھا ، اور سندھ حکومت اب بھی سہولیات فراہمی کے دعوے کررہی ہے تو کس منہ سے؟؟۔(کامران شیخ)۔۔

(یہ تحریر کامران شیخ کی وال سے لی گئی ہے، جس کے مندرجات سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں، علی عمران جونیئر)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں