تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،پرانے زمانے کے حوالے سے ایک فقرہ اکثر سننے کو ملتا ہے کہ۔۔جب روم جل رہا تھا تو نیرو چین کی بانسری بجارہا تھا۔۔ روم کسی زمانے میں بہت بڑی سلطنت ہوا کرتا تھا اور ”نیرو“ اس کا حکمران تھا۔ موجودہ حالات کے حساب سے دیکھا جائے تو ۔۔ملک ڈوب رہا تھا اور حکمران سیاست، سیاست کھیل رہے تھے۔۔کبھی شہباز گل کا مسئلہ، کبھی عمران خان کی گرفتار ی کا ایشو، کبھی ن لیگی رہنماؤں کے خلاف مقدمات ، کبھی رانا ثنا اللہ کی پریس کانفرنس، کبھی مریم اورنگزیب کی، کبھی فواد چودھری، کبھی جاوید لطیف۔۔ عجیب ہی تماشہ لگاہوا ہے، ٹی وی چینلز پر دھماچوکڑی مچی ہوئی ہے، کسی کو خیال نہیں آرہا کہ ملک کی ستر فیصد آبادی کس بے بسی کا شکار ہے، بلوچستان پورا ڈوب چکا ہے، کے پی اور سندھ کا برا حال ہے، جنوبی پنجاب والے دہائی دے رہے ہیں کہ ہمیں بچالو۔۔فصلیں، مال مویشی سب کچھ بہہ چکا۔۔انسانی زندگیاں الگ سسک سسک کر دم توڑ رہی ہیں۔۔
ایک بوڑھے مریض نے ڈاکٹر سے کہا، میری سیدھی ٹانگ میں درد ہے۔۔ ڈاکٹر نے برجستہ کہا۔۔یہ تو بڑھاپے کی وجہ ہے۔۔ بوڑھے مریض نے ڈاکٹر کی بات تحمل سے سنی اور جواب دیا۔۔ مگر ڈاکٹر صاحب میری دوسری ٹانگ بھی تو اسی عمر کی ہے،اس میں درد کیوں نہیں ہورہا؟؟۔۔یہ حساب ہمارے ملک کا ہے، سب کو معلوم ہے کہ ہر سال بارشوں سے تباہ کاری ضرور ہوتی ہے، سیلابی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے لیکن اس کا توڑ کوئی نہیں کرتا،لیپا پوتی اور معاوضے دے کر معاملہ پھر سے اگلے سال تک ٹال دیاجاتا ہے۔۔ایک گاؤں میں سیلاب آگیا، ایک حکومتی افسر گاؤں پہنچا اور لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ پانی کا بہاؤ¶ بہت بڑھ گیا ہے، پانی خطرے کے نشان سے 2 فٹ اونچا ہوگیا ہے۔ لوگوں نے خوفزدہ ہوکر کہا کہ اب کیا ہوگا؟ افسر نے کہا۔۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ہم نے انتظام کرلیا ہے۔ خطرے کے نشان کو دو فٹ سے بڑھا کر چار فٹ کردیا ہے۔
پاکستان میں 2022 کا مون سون غیر معمولی حد تک طویل اور تباہ کن رہا ہے جس نے ملک کے طول و عرض میں سیلابی کیفیت پیدا کی ہے۔بلوچستان میں بارشوں اور سیلاب سے مختلف حادثات میں سیکڑوں جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ سندھ اور بلوچستان میں بارشوں سیلاب سے پیدا ہونے والی صورت حال امداد کی عدم فراہمی کے باعث مزید ابتر ہوگئی ہے۔حالیہ مون سون سیزن نے سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں جہاں بارشوں کے کئی ریکارڈ توڑ ے ہیں وہیں لاکھوں لوگوں کی زندگی مزید دشوار ہوگئی ہے۔شدید بارشوں اور سیلابی ریلوں کے باعث بلوچستان کادیگر صوبوں سےریل رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔مسلسل بارشوں اور سیلابی ریلوں کے سبب پنجاب بلوچستان شاہراہ چھ روزسے بند ہے۔ کوئٹہ جیکب آباد شاہراہ، ژوب سے ڈی جی خان، بارکھان تاڈی آئی خان اور لسبیلہ سے کراچی شاہراہیں آمدورفت کیلئے بند کردی گئی ہیں جب کہ باب دوستی کے قریب کارگو روٹ بہہ گیا جس کے نتیجے میں پاک افغان تجارت بھی بحال نہ ہو سکی۔ بلوچستان کے تمام سرکاری ونجی تعلیمی اداروں میں 27 اگست تک چھٹیاں دے دی گئیں۔ پنجاب میں اب تک کی حالیہ بارشوں اور سیلاب سے صوبے کے تین جنوبی اضلاع تونسہ، راجن پور اور ڈیرہ غازی خان زیادہ متاثر ہیں۔محکمہ موسمیات نے 23 اگست سے پنجاب میں مزید مون سون بارشوں کی پیشگوئی کردی۔ محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ 23 اگست سے جنوبی پنجاب میں نئی مون سون سرگرمی شروع ہونے کا امکان ہے،یعنی حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔
ایک مرتبہ گاؤں میں سیلاب آگیا۔۔ڈوبتے ہوئے لوگوں کو بچانے کے لئے ہیلی کاپٹر کا استعمال کیا گیا۔۔ایک سو پچاس کی آبادی والے گاؤں سے پانچ سو آدمیوں کو گِن کر نکالا گیا،پھر ہیلی کاپٹر والے سرپنچ کے پاس گئے اور پوچھا۔۔آپ کے گاؤں کی کل آبادی ایک سو پچاس ہے اور میں اب تک پانچ سو نکال چکا ہوں ایسا کیوں؟تو سرپنچ نے کہا ۔۔سر، گاؤں والوں نے ہیلی کاپٹر پہلی مرتبہ دیکھا ہے، آپ ایک طرف سے نکالتے ہو یہ دوسری طرف سے پھر آ جاتے ہیں۔۔میں خود تیسری بار آیا ہوں۔۔ایک دن پروفیسر صاحب ایک ہوٹل میں تنہا بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک وکیل ہوٹل میں داخل ہوا۔ اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی کوئی میز خالی نہ تھی۔ صرف پروفیسر صاحب ٹیبل پر اکیلے تھے۔ وہ ان کے قریب آیا اور ان سے بیٹھنے کی اجازت طلب کی۔ انہوں نے اجازت دیدی۔ دونوں بہت دیر تک ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔ پاس پڑے ہوے اخبار میں ایک انشورنس کمپنی کا اشتہار تھا۔ وکیل نے اسے اٹھاتے ہوے کہا، انشورنس زمانہ کی اہم ضرورت بن گیا ہے۔ پروفیسر نے پوچھا وہ کیوں؟وکیل نے کہا اب دیکھئے نا، میرے گھر میں اچانک آگ لگ گئی اور سب کچھ جل کر تباہ ہو گیا۔ میں نے مکان اور سامان کا بیمہ کر رکھا تھا۔ چنانچہ بیمہ کمپنی سے مجھے جو رقم ملی اس سے میں ایک بہتر مکان اور بہتر سامان خرید سکا۔پروفیسر نے کہا، ہان یہ بات تو ٹھیک ہے۔ میرے ایک دوست کے ساتھ بھی اسی طرح تباہی کا واقعہ پیش آیا تھا۔ ان کا مکان اور سارا سامان سیلاب کی نذر ہوگیا تھا۔ انہوں نے بھی انشورنس کمپنی کی مدد سے دوسرا مکان بنایا۔۔وکیل صاحب پروفیسر کی بات سن کر حیران ہوکر کہنے لگا۔۔ اچھا! مگر یہ بتائیے آپ کے دوست نے سیلاب کس طرح شروع کیا؟۔۔ مالک اور نوکر ہوٹل کے ایک ہی کمرے میں ٹھہرے ہوئے تھے، مالک نے نوکر سے کہا۔۔اٹھ کر دیکھ باہر بارش ہورہی ہے؟ نوکر نے جواب دیا۔۔ہاں جی،ہورہی ہے، ابھی ایک بلی ادھر سے گزری تھی وہ بھیگی ہوئی تھی۔۔مالک بولا۔۔ اچھا چل، اٹھ کر لائٹ بجھا دے۔ نوکر نے کہا۔۔ آپ منہ پر چادر اوڑھ لیں اندھیراہوجائے گا۔۔ مالک اپنے نوکر کی بات سن کر چڑکر بولا۔۔اچھا، چل اٹھ کر کھڑکی بند کردے، ٹھنڈی ہوا آرہی ہے۔۔نوکر بیزاری سے کہنے لگا۔۔لوجی، اب آپ سارے کام ہی مجھ سے کرائیںگے؟
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اگر کتا بلی مرغی اور گدھا ایک جگہ بڑے پیار سے رہے ہیں تو سمجھ لیں وہ کسی کے پالتو ہیں ورنہ ایسا اتحاد ناممکن ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔