rang road asal kahani kia hai

مہنگائی کیوں ہورہی ہے؟

تحریر: حبیب اکرم۔۔

اگست 2018 میں پاکستانی کرنسی میں ایک سو بائیس روپے پچاسی پیسے کے عوض ایک امریکی ڈالر مل رہا تھا۔ آج یہی ڈالر ایک سو تریسٹھ روپے تراسی پیسے کا ہے۔ گویا چھبیس مہینوں کی تبدیلی حکومت نے پاکستانی روپے کی قدر میں تینتیس فیصد سے کچھ زائد کمی کر دی۔ اس بات کو یوں سمجھ لیجیے کہ آپ کی‘ میری جیب میں ایک سو روپے تھے۔ جب ہم اپنا ایک سو روپیہ لے کر بازار میں نکلے تو پتا چلا کہ جو اشیا ہم خریدنا چاہتے ہیں وہ مہنگی ہو کر ایک سو تینتس روپے کی ہو چکی ہیں۔ وہ چیزیں جو دوسرے ملکوں سے آتی ہیں کرنسی کی قدر میں کمی کی وجہ سے فوری طور پر مہنگی ہو جاتی ہیں۔ باہر سے آنے والی اشیاء کی فہرست تو کافی طویل ہے لیکن آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ کھانے کا تیل، پٹرول، موبائل فون، گاڑیوں کے اکثر پرزے وغیرہ جو باہر سے آتے ہیں، چند روز میں ہی عام آدمی کی پہنچ سے باہر چلے گئے۔ آپ کے گھر میں کھانا بنانے کا تیل جو ایک ہزار کا مہینے بھر کے لیے کافی رہتا تھا، اب تیرہ سو روپے کا ہو چکا ہے۔ پٹرول کا خرچ بھی اسی تناسب سے بڑھ گیا ہے۔ ٹرک، ویگن، بس، ٹرین اور جہازوں کو بھی اپنے کرایوں میں اضافہ کرنا پڑا ہے۔ جب نقل و حمل کے اخراجات بڑھ جائیں تو ان کا اثر لامحالہ ہر چیز پر پڑتا ہے۔ گویا روپے کی قدر میں کمی کا مطلب ہے نہ صرف درآمدی سامان کی مہنگائی بلکہ ہر اس چیز کی بھی مہنگائی جو پاکستان میں پیدا ہوتی ہے۔ یہ بھی یاد رکھیے کہ روپے کی قدر میں تبدیلی کے مکمل اثرات نمایاں ہونے میں بارہ سے اٹھارہ ماہ لگتے ہیں‘ یعنی مہنگائی جھٹکوں سے بڑھتی رہتی ہے۔ ظاہر ہے روپے کی قدر میں کمی خود حکومت نے کی ہے اس لیے مہنگائی کے اس بنیادی سبب کی ذمہ دار بھی یہی حکومت ہے جس کے سربراہ کو ہر روز مہنگائی پچھلی حکومتوں پر ڈالتے دیکھا اور سنا جا سکتا ہے۔

مہنگائی کی دوسری وجہ بھی حکومت کی ہی پیدا کردہ ہے اور وہ ہے بجلی۔ روپے کی قدر میں کمی سے بجلی کی قیمت میں اضافہ ہوا‘ سمجھ آتی ہے‘ لیکن ایماندار حکومت کا حال یہ ہے کہ اپنے چھبیس مہینوں کے اقتدار میں یہ بجلی چوری نہیں روک سکی۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ جو شخص ایمانداری سے بجلی کا بل دے رہا وہ دراصل بجلی کی وہی قیمت ادا کرتا ہے جو امریکہ میں رہنے والا ادا کرتا ہے‘ لیکن امریکہ میں رہنے والے پر قسطوں میں اس گردشی قرضے کا بوجھ نہیں ڈالا جاتا جو بجلی کی پچیس فیصد چوری سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کو مزید آسانی سے یوں سمجھ لیجیے کہ آپ نے پچھلے مہینے کا جو بل ادا کیا ہے اس میں اس بجلی کے پیسے بھی شامل ہیں جو دوسروں نے چوری کی ہے۔ ایک حساب کے مطابق ہر ایک یونٹ کے پیچھے چار روپے ستاون پیسے کا قرضہ بل دینے والوں کے سر چڑھ جاتا ہے۔ پورا بل دینے کے باوجود یہ قرضہ آج نہیں تو کل ہمیں اتارنا پڑے گا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت چوروں کو پکڑے مگر یہ خاموشی سے ہر مہینے کسی نہ کسی بنیاد پر بجلی کی قیمت بڑھا دیتی ہے، جس کی وجہ سے کاشتکار سے لے کر صنعتکار تک سب کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ انہیں پیداوار کی قیمت بڑھانا پڑتی ہے، پھر مہنگائی کی ایک نئی لہر جنم لیتی ہے اور وزیر اعظم کو مہنگائی پر نوٹس لینے کا نیا موقع میسر آجاتا ہے۔

تیسری وجہ اذیت ناک مہنگائی کی ہے پٹرول پر محصول۔ پٹرول کا نرخ عالمی منڈی کے حساب سے اوپر نیچے ہوتا ہے۔ ہماری حکومت نے کمال یہ کیا ہے کہ اس پر جو محصول پندرہ روپے فی لٹر ہوا کرتا تھا اسے پچیس روپے کردیا ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ آٹھ ہزار ارب روپے ٹیکس اکٹھا کرنے کے دعوے کرنے والی حکومت میں یہ فراست ہی نہیں کہ آٹھ ہزار تو دور کی بات پانچ ہزار ارب بھی ٹیکس اکٹھا کرسکے۔ سو اس نے خاموشی سے میری آپ کی جیب کاٹی اور خزانہ بھرنا شروع کردیا۔ ٹیکس چوروں کیلئے آج بھی یہ سکیم جاری ہے کہ وہ چاہیں تو اپنے کالے پیسے کو زمین خرید کر جائز بنا سکتے ہیں لیکن موٹر سائیکل یا چھوٹی موٹی گاڑی چلانے والے کیلئے کوئی رعایت نہیں۔ وہ اپنی تنخواہ پر ٹیکس دے اور پھر پچاس روپے کا پٹرول بھی ڈلوائے تو تیرہ روپے کا ٹیکس بھرے۔ اب کوئی بتائے کہ یہ مہنگائی کس نے کی ہے؟

پاکستان میں اگر آپ کے گھر پر گیس کا کنکشن ہے تو آ پ ملک کی تئیس فیصد خوش قسمت آبادی میں شامل ہیں۔ آپ کو چند ماہ سے گیس کا بل دیتے ہوئے جو تکلیف ہورہی ہے اس کی ذمہ دار بھی حکومت ہے۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا کو گیس دینے والی کمپنی سوئی ناردن ہے، جبکہ سندھ اور بلوچستان میں یہی کام سوئی سدرن کرتی ہے۔ یہ دونوں کمپنیاں حکومتِ پاکستان کی ملکیت ہیں۔ پچھلے دو برسوں میں حکومت پاکستان کا جو حال ہے وہ ان دو کمپنیوں کا بہت پہلے سے ہے، لیکن تبدیلی حکومت کی وجہ سے تباہی دوچند ہوگئی ہے۔ گیس کی مد میں ہونے چوریوں کا وزن بھی آپ کو‘ مجھے اٹھانا ہے۔ دراصل یہ چوریوں کا بوجھ ہے جو اس حکومت نے چوروں پر ڈالنے کے بجائے آپ پر ڈال دیا ہے کیونکہ چور تو پکڑے نہیں جاتے، آپ اور میں تو گھڑے کی مچھلی ہیں، جب چاہا پکڑ لیا۔ یاد رکھیے کہ گیس مہنگی ہونے کی خبر آپ کو کوئی اور نہیں خود حکومت دیتی ہے‘ اس لیے مہنگائی کے اس حصے کی ذمہ دار بھی وہی ہے۔

اب آجائیے گندم اور آٹے کی طرف۔ پاکستان میں جتنی بھی گندم پیدا ہوتی ہے اس کی سب سے بڑی خریدار وفاق اور پنجاب کی حکومتیں ہوا کرتی ہیں۔ اتفاق سے دونوں ہی تحریک انصاف کی ہیں یعنی تبدیلی کی نقیب اور ایماندار۔ اس برس حکومت کا دعویٰ تھا کہ گندم کی پیداوار ڈھائی کروڑ ٹن ہو گی۔ یہ مقدار ہماری مقامی ضروریات کے لیے کافی ہے۔ اب گندم کی فصل آئی تو پینتالیس لاکھ ٹن خرید لی محکمہ خوراک پنجاب نے، یہ بھی فرض کرلیا کہ پاسکو نے سولہ لاکھ ٹن گندم خریداری کا ہدف حاصل کرلیا تو یہ ہوگئی اکاون لاکھ ٹن گندم۔ اگر ڈھائی کروڑ ٹن گندم ملک میں پیدا ہوئی ہے تو پھر باقی دو کروڑ ٹن کہاں ہے؟ کیونکہ منڈی میں ہوتی تو نظر آتی، اس کی قیمت کم ہوتی۔ یہ کہہ کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی کہ ذخیرہ اندوزوں نے گندم روک لی ہے۔ منڈی کی حالت دیکھ کر اب یہ گمان گزرنے لگا ہے کہ اصل میں حکومت کو اتنا بھی علم نہیں کہ گندم کتنی پیدا ہوئی۔ عین ممکن ہے کچھ عرصہ بعد پتا چلے کہ گندم کی پیداوار ہی کم ہوئی تھی۔ اب جو حکومت ملک میں گندم کے سب سے بڑے ذخائر کی مالک ہو اور پھر بھی گندم کی قیمت کم نہ ہو سکے تو قصور کس کا ہے؟ یہ مہنگائی کس کی نالائقی سے ہوئی ہے؟

روپے کی قدر میں کمی، پٹرول پر ٹیکس، گیس کے بلوں میں اضافہ، بجلی کے نرخوں میں اضافہ اور گندم کی عدم دستیابی مہنگائی کی پانچ بنیادی وجوہ ہیں۔ ان پانچ شعبوں میں جو کچھ بھی اچھا یا برا ہوتا ہے، حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یہ پانچ وجوہ دور کرلیں پاکستان سے مہنگائی ختم ہوجائے گی۔ دکانوں پر چھاپے مارنے سے یا ٹائیگر فورس کو بازاروں میں چھوڑ دینے سے کچھ نہیں ہوسکتا۔ مہنگائی بازار کا مسئلہ نہیں، پالیسی کا مسئلہ ہے۔ اگر حکومت نے پالیسی میں کوئی تبدیلی نہ کی تو مہنگائی بڑھتی چلی جائے گی‘ لیکن اس بارے میں کچھ کرنے کے بجائے ہمارے وزیراعظم نے مہنگائی پر نوٹس لے لیا ہے۔ گزشتہ بائیس مہینوں میں یہ ان کا گیارہواں نوٹس ہے۔ جو انجام پہلے والے نوٹسوں کا ہوا اس کا بھی وہی ہوگا۔(بشکریہ دنیا)

انسٹاگرام  اب فیس بک جیسا فیچر متعارف کرائے گا۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں