bonay qad ke baray log

محکمہ قانون اور میراثی پنا۔۔

تحریر: انورحسین سمیرا ، تحقیقاتی صحافی۔۔

پنجاب میں محکمہ قانون کب تک لاقانونیت تے میرٹ دے خلاف چلایا جائے گا. محکمہ قانون کب تک میراثی پنہ کردا رے گا۔۔اہلیت، شفافیت، میرٹ اور انصاف جن معاشروں میں قائم رکھا جاتا ہے وہ معاشرے نہ صرف ترقی کرتے ہیں بلکہ دیگر معاشروں میں عزت واحترام بھی پاتے ہیں. ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ یہاں سرکار کی نوکری دینی ہو یا کوئی ترقیاتی کام کا ٹھیکہ اہلیت، شفافیت، میرٹ اور انصاف کو نہ صرف پاوں تلے روندا جاتا ہے بلکہ فخر سے اس  ذلت کی منادی کروائی جاتی ہے تاکہ زندہ بچ جانے والے ضمیر بھی مردہ ہو جائیں۔۔

 ملک میں جاری بدحالی اور نفس نفسی اس کی اصل عکاس ہے اور ہم ہیں کہ بدمست ہاتھی کی طرح مگن ہیں. میرٹ، شفافیت اور انصاف کی دعوے دار کپی تان جی کی پنجاب حکومت نے اگست میں نجی شعبے سے صوبائی سیکرٹری قانون وپارلیمانی امور تعینات کرنے کے لئے اخبار میں اشتہار دیا جس میں اہلیت ایل ایل بی، ایل ایل ایم اور پی ایچ ڈی کے ساتھ 15سے 20 سال کا قانون کے شعبہ میں تجربہ رکھا گیا. کامیاب امیدوار کو گریڈ 21 میں بھرتی کیا جانا تھا. دو پی ایچ ڈی امیدواروں سمیت 31 امیدوارں نے اپلائی کیا. پنجاب حکومت نے انتخاب کے لئے اک اعلی  سطحی  کمیٹی بنا دی، کمیٹی نے تعلیمی قابلیت و تجربے کے 60 نمبر جبکہ انٹرویو کے لیے 40 نمبر مختص کیے. امیدواروں کے انٹرویوز کیے گئے اور ایک ایسے قانون دان کو منتخب کیا گیا جس نے تعلیمی قابلیت کے میدان میں 33 نمبرز لیے جبکہ اس کو انٹرویو میں چیف سیکرٹری سمیت کمیٹی ممبران نے مبینہ طور پر متفقہ  40 نمبر دیے. میرٹ کے اس پراسس میں تعلیمی قابلیت و تجربے میں 58 نمبر لینے والوں کو انٹرویو میں فیل کر دیا گیا۔۔ سرکارِ کی نوکری اس ڈھٹائی اور دھندلی کے ساتھ ایسے قانون دان کو پلٹ میں رکھ کر پیش کی گئی جو قابلیت میں سب سے نچلے درجے پر فائز پائے گیے تھے. یہ پہلی دفعہ محکمہ قانون کے ساتھ کھلواڑ نی ہوا ماضی میں شہباز سپیڈ نے بھی ایک ایسے شخص کو 10سال مسلسل صوبائی سیکریٹری قانون تعینات رکھا جو تعیناتی کے وقت 65 سال کا تھا اور 75 سال تک جونک کی طرح سرکاری خزانے کا خون چوستا رہا اور حکومت کے ہر دو نمبر و جعلی کام پر تصدیق کی مہر ثبت کرتا رہا. اس شخص نے صوبے میں آرڈیننس جاری کرنے کی فیکٹری لگا رکھی تھی اور شہباز کے ہر غیر قانونی کام کو قانونی و آئینی تحفظ دیا. اب کپی تان کی حکومت جو ملک کو مدینے کی ریاست بنانے کے بلند دعوے کرتی ہے نے ایک نااہل، نالائق اور کم تجربہ کار کو صوبائی سیکریٹری قانون و پارلیمانی امور لگا کر پڑھے لکھے، اہل اور قابل وکلاء کے حق پر نہ صرف ڈاکہ ڈالا بلکہ شفافیت اور میرٹ پالیسی کا خون بھی کیا. اب موصوف سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ایمانداری سے حکومت کو تمام قانونی اور آئینی امور میں درست قانونی رائے دے سکیں گے. سفارش اور نااہلیت کی سیڑھی سے معراج پانے والے صاحب کیا حکومت کے غیر قانونی امور کے خلاف قانون کی کتاب لے کر کھڑے ہوسکیں گے. کیا حکومت کو غلط کاموں سے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر روک سکیں گے. کیا صوبے میں قانون کی حکمرانی کے لیے آواز حق بلند کر سکیں گے. اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ  تعیناتی جو تحریک انصاف کے بیانیہ کی بظاہر خلاف ورزی ہے بیانیے کو تقویت دیتی ہے یا ڈبوتی ہے. یہ تعیناتی کپٹین (ر) صفدر کے یار اور بیج میٹ سابق چیف سیکرٹری کامران علی افضل (کمیٹی ممبر) کی ایمانداری، وضعداری، میرٹ اور شفافیت کے دعوے کا جھوٹ بھی کھول کر رکھ دینے کے لیے کافی ہے کیونکہ موصوف انٹرویو میں سب سے زیادہ نمبر دینے کی دوڑ میں آگے تھے اور میرٹ کے خلاف اس بھرتی کے آگے لیٹ گئے تھے. کب تک حکومت کے ایوانوں اور گورننس کی راہداریوں میں منافقت سے میرٹ، شفافیت اور اہلیت کا قتل ہوتا رہے گا. کب ان ارباب اختیار کی آنکھوں پر بندی ظلم کی پٹی اترے گی. اب عوام کو میرٹ کی بحالی کے لئے طبل جنگ بجانا ہوگا یا مزید لیتر کھانے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔۔ یا پھر ظلم کے معاشرے میں سفارش کلچر زندہ باد اور میرٹ مردہ باد کی صدائیں بلند ہوتی رہیں گی اور عوام خواب خرگوش کے مزے لیتی رہے گی۔۔(انورحسین سمرا، تحقیقاتی صحافی)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں