تحریر: روہیل اکبر
محکمہ اطلاعت پنجاب نے جمعہ کے مبارک دن اخباری کالم نویسوں کے اعزاز میں کھانے کا اہتمام کیا جو ایک انتہائی اچھا اقدام تھا جس میں نامی گرامی لکھاریوں نے شرکت کی یہ وہ لوگ ہیں جنہیں لوگ پڑھنا چاہتے ہیں انہیں دیکھنا چاہتے ہیں انکی باتیں سننا چاہتے ہیں اور انکے ساتھ تصویریں بنوا کر خوبصورت یادگار کے طور پر محفوظ کرنا چاہتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جنکے پاس اپنے لیے بھی وقت نہیں ہوتا میل ملاقاتوں اور،خیالات کے تانے بانے میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ اکثر کے پاس گھروالوں کے لیے بھی وقت نکالنا مشکل ہو جاتا ہے جبکہ انکے مقابلہ میں سرکاری افسران صبح گھر سے نکلتے ہیں اور شام ڈھلنے سے پہلے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو جاتے ہیں سرکاری گاڑی،سرکاری پیٹرول اورساتھ میں زندگی کے سبھی خوبصورت رنگوں کا مزہ وہ بھی مفت میں باقی سبھی محکموں کو ایک سائڈ پر رکھیں صرف اطلاعات و نشریات کے محکمہ ڈی جی پی آر کو سامنے رکھ کر اندازہ لگائیں کہ ہمارے باقی ادارے کیا کررہے ہونگے حالانکہ ڈی جی پی آر میں کرپشن بھی نہ ہونے کے برابر ہے ویسے یہ محکمہ کبھی طاقت کا ستون سمجھا جاتا تھا جو اب مظلومیت کے آخری درجے پر ہے اور اب اسکا کردار صرف ایک ڈاکیے کا رہ گیا ہے جو اشتہارات کی صورت میں ادا کیا جارہا ہے ویسے اسکے علاوہ اور بھی چھوٹے چھوٹے کام ہوتے ہیں جن میں چیکوں کی تقسیم،پریس ریلیز جاری کرنا،ٹیلی ویژن کے لیے ٹکر جاری کرنا اور حکومتی وزیروں،مشیروں کی پریس کانفرنس کا انتظام کرنا تقریبا یہ وہ کا م ہیں جو اس محکمہ میں ہورہے ہیں اسکے علاوہ اب صحافی کالونی فیز2کے فارم بھی مل رہے ہیں جبکہ ایکریڈیشن کے لیے بھی صحافی یہاں چکر لگاتے ہیں وہ بھی اس لیے کہ ریلوے کرایہ میں رعایت مل جاتی ہے جس دن یہ اس سہولت کے لیے ایکریڈیشن کارڈ کی شرط ختم ہوگی اسی دن سے اس کارڈ کی اہمیت بھی ختم ہوجائیگی اور صحافیوں کا رابطہ بھی ختم ہو جائیگا صرف مارکیٹنگ والے ہی چکر لگایا کرینگے ویسے یہ محکمہ پبلک ریلیشنز کا ہے ایک دوسرے کے ساتھ خوشگوار تعلقات بنانے کا ہے اور پھر ان تعلقات کو پروان چڑھانے کا نام ہے جسکے بعد وہ کام بھی ہوجاتے ہیں جو تصور سے بھی باہر ہوتے ہیں اسی لیے تو شائد محترمہ بینظیر بھٹونے اس ادارے کے بارے میں تاریخی جملے بھی بولے تھے لیکن اس وقت اس محکمہ کے سربراہان اسی محکمہ سے ہوتے تھے جن کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے تھے صحافی ملنے کے لیے چٹ یا کارڈ نہیں بھجواتے تھے بلکہ جن لوگوں نے اس محکمہ کو ڈی جی پی آر بنایا وہ خود چل کر اخباروں کے دفتر جایا کرتے تھے دوستیاں بڑھاتے تھے کسی چھوٹے اور بڑے صحافی میں تفریق نہیں رکھتے تھے یہ محکمہ اور اخبار نویس ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہے دونوں ملکر چلیں گے تو تب ہی حکومت کو اس محکمہ کا فائدہ پہنچ سکے گا مگر جب سے اس محکمہ میں پبلک ریلیشنز کی بجائے بیوروکریسی کے لوگ داخل ہونا شروع ہوئی تب سے یہاں کا ہر افسر حقیقت میں افسر بن گیا لیکن ابھی بھی چند ایک لوگ ہیں جو صحیح معنوں میں پبلک ریلیشنگ کا کام سنبھالے ہوئے ہیں شائد اس لیے کہ وہ اس محکمہ میں آنے سے قبل کسی نہ کسی اخبار میں کام کرتے رہے اور ایک اخبار والے کے تعلقات کا اندازہ اب بھی اگر لگانا ہو تو اس بات سے لگالیں کہ ان سے تعلقات بڑھانے کے لیے سیکریٹری اور ڈی جی پی آر کو اچھے ہوٹل میں دعوت دیکر ملاقات کرنی پڑتی ہیں یہ لوگ کبھی کسی ڈی جی پی آر یا سیکریٹری کو ملنے انکے دفتر نہیں جاتے اور نہ ہی انہیں اس بات سے کوئی غرض ہے کہ اس محکمہ میں کون آتا ہے اور کون جاتا ہے سوائے چند ایک ڈی جی پی آر اور سیکریٹریوں وغیرہ کا نام یاد ہو وہ بھی انکے جو انہیں ملتے رہتے ہیں اس کے برعکس اس ادارے میں آنے سے پہلے اور جانے کے بعد بھی انہیں یہ عظیم لوگیاد رہتے ہیں ویسے بھی اس محکمہ کے بارے میں انکی وزیر صاحبہ کے جو جذبات ہیں وہ بھی اس محکمہ میں بیٹھے ہوئے افسران بخوبی جانتے ہیں اور اسی لیے شائد وہ بھی کسی کام میں دلچسپی نہیں لیتے یہاں پرترقیاں وقت پر نہیں ہوتی جسکا انہیں رنج ہے لیکن انکے مقابلہ میں ایک سکول ٹیچر جو بچوں کا مستقبل بناتے ہیں وہ جس سکیل میں آتے ہیں اسی میں ریٹائر ہو کر گھر چلے جاتے ہیں انکی دلچسپی بھی اتنی ہوتی ہے کہ بچوں کو کتاب کا صفحہ پڑھایا اور اگلے دن اسی کو سن لیا اس سے پہلے کہ بات کسی اور طرف نکل جائے واپس اپنے محکمہ ڈی جی پی آر کی طرف آتے ہیں بعض اوقات یہاں آکر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ تعلقات میں بگاڑ پیدا کرنے والا محکمہ بنتا جارہا ہے اس دفتر کے ہر افسر کے پاس اخباروں کا بنڈل آتا ہے ان میں سے اکثریت اس بنڈل کی تہہ بھی خراب نہیں ہونے دیتے جیسے آتے ہیں سارے دن کے بعد وہ بنڈل ویسے ہی اٹھا لیا جاتا ہے اور تواور ان لوگوں نے آج تک صحافیوں کی لسٹ کو اپ ڈ یٹ نہیں کیا ان کو شائد یہ بھی علم نہ ہو کہ کون صحافی کس اخبار میں لکھتا ہے اور کیا لکھتا ہے ان پاس وہی لسٹیں ہیں جو آج سے 10سال پرانی بنی ہوئی ہیں یہاں کے ڈائریکٹر،ڈپٹی ڈائریکٹر اور پی آر او سے اگر آپ پوچھیں کہ حضور ایک دن کی مصروفیا ت کیا ہیں تو وہ نہیں بتا سکے گا سوائے ایک یا دو پریس ریلیزوں کے جو امر مجبوری اسے تیار کرنی پڑتی ہیں اور پھر یہ لوگ خبر ای میل کرکے یا اپنے ہی واٹس ایپ گروپ میں بھیج کرمطمئن ہوجاتے ہیں کہ اوپر سے نیچے تک سب نے دیکھ لی اور پھر کام ختم یہاں کے چند ایک افسران بدتمیز تو ہیں ہی ساتھ میں وہ عملہ بھی بدتمیزیاں کرتا ہے جنہیں کوئی کام کہہ دیں مثال کے طور پر آپ کو کسی بھی سرکاری پروگرام کی تصویریں چاہیے تو وہ بھی نہیں ملیں گی رہی وزیر اعلی کے پروگراموں کی تصویریں وہ انکے پاس ہوتی ہیں اور نہ ہی انہیں بنانے کی اجازت ہے اسکے لیے وزیر اعلی دفتر کی الگ سے ٹیم موجود ہے محکمہ ڈی جی پی آرکو اس حد تک بگاڑنے میں جہاں باہر سے آنے والوں نے اپنا حصہ ڈالا ہے اس سے بڑھ کر اسی محکمہ کے افسران نے اس محکمہ کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اس ادارے کے ڈائریکٹر نیوز کو یہ ہی نہیں علم کے اخباروں میں لکھنے والے کتنے لوگ ہیں اور آج تک اس نے کن کن ایڈیٹروں،نیوز ایڈیٹروں اور چیف نیوز ایڈیٹروں سے تعلقات بنائے اورپھر ان تعلقات کو بنیاد بنا کر کبھی کسی خبر کے لیے،ایڈ یشن کے لیے اور کالم کے لیے کہا تو جواب صفر انہیں چاہیے کہ اخباری صنعت میں نامی گرامی پہلوانوں سے شنائی ضرور بڑھائیں ساتھ میں چھوٹے چھوٹے نئے لکھنے والوں سے بھی تعلقات کو فروغ دیں اور پھر تعلقات کو اس حد تک لے جائیں کہ آ انہیں ایک پھول پیش کریں اور بدلے میں وہ پوری مالا پرو دیں اسی طرح ذہن سازی ہوتی ہے جسکا فائدہ حکومت کو بھی پہنچتا ہے اور آپکے تعلقات بھی مضبوط ہوتے ہیں یاد رکھیں جب تک آپ کے صحافیوں سے تعلقات دوستانہ نہیں ہونگے تب تک اس محکمہ کا اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا مشکل ہے ویسے ایک اندر کی خبریہ بھی ہے کہ ڈی جی پی آر اپنے محکمہ کے سیکریٹری سمیت کسی کو بھی لفٹ نہیں کرواتا کیونکہ اسے لانے والوں نے کہہ رکھا ہے کہ کھل کرکھیلیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ گراؤنڈاس کھیل کے لیے موزوں نہیں ہے یہاں پر تو پہلے ہی سے ایسے کھلاڑی موجود ہیں جو اپنے ہی کپتان کی ٹانگیں کھینچ کر اپنے ہی پول میں بال پھینک کر گول کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ (روہیل اکبر)