تحریر: مرزا اشتیاق بیگ۔۔
گزشتہ دنوں لاہور کی احتساب عدالت نے جنگ اور جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کو ان پر نیب کے بنائے گئے کیس میں باعزت بری کردیا۔ ان کی بریت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ نیب کیس محض مفروضے پر مبنی تھا۔ انہیں مارچ 2020 میں نیب نے اپنی نوعیت کے انوکھے 36 سال پرانے پرائیویٹ پراپرٹی کیس میں گرفتار کیا تھا۔نیب کا الزام تھا کہ میر شکیل الرحمٰن نے 1986میں لاہور کے علاقے جوہر ٹائون میں 54 کنال اراضی کی خریداری غیر قانونی طور پر کی تھی جس سے قومی خزانے کو نقصان پہنچا تھا۔ نیب کے بنائے گئے جعلی کیس میں میر شکیل الرحمٰن نے 8 ماہ تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔
اس دوران نیب نے کیس کو طول دینے اور میر شکیل الرحمٰن کو پابندِ سلاسل رکھنے کیلئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے اور اُن کے ضمانت کے حق کو سلب کیا۔ یہ کیس اس لحاظ سے بھی منفرد تھا کہ اس کیس کے دوران کئی بنچ تبدیل ہوئے تاہم 9 نومبر 2020کو سپریم کورٹ نے ضمانت پر اُن کی رہائی کا حکم دیا اور گزشتہ دنوں لاہور کی احتساب عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں میر شکیل الرحمٰن کو تمام الزامات سے بری کرتے ہوئے ضبط کی جانے والی تمام پراپرٹی واپس کرنے کا حکم جاری کیا۔میر شکیل الرحمٰن پر بنائے گئے کیس اور ان کی گرفتاری کو شروع دن سے ہی ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کو دبانے سے تعبیر کیا گیا تھا مگر اس وقت کی معاون خصوصی اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کا آزادی صحافت سے کوئی تعلق نہیں تاہم ان کی یقین دہانی کے باوجود اگلے ہی روز جیو نیوز کی نشریات ملک بھر میں بند کردی گئیں۔
ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے سربراہ کی گرفتاری پر پاکستان سمیت دنیا بھر کی صحافتی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن سمیت تمام عالمی موقر اداروں نے پاکستان میں صحافتی آزادی پر سوالات اٹھائے۔امریکی نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا ایلس ویلز نے میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا جبکہ مشہور ہالی ووڈ اداکار جارج کلونی کی اہلیہ بیرسٹر امل کلونی نے میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کے خلاف اقوام متحدہ میں پٹیشن دائر کی جس میں گرفتاری کو سیاسی انتقامی کارروائی قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان اور نیب ملک میں انسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائے اور میر شکیل الرحمٰن کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کے خلاف جنگ گروپ کی عمارت کے باہر ہونے والے کئی احتجاجی مظاہروں میں، مَیں بھی شریک رہا اور اپنی ایک تقریر میں مَیں نے کہا تھا کہ کسی پرائیویٹ ڈیل میں نیب کا قانون بزنس مین کو ہراساں کرنے کی قطعی اجازت نہیں دیتا۔ میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس کا نائب صدر رہ چکا ہوں۔
چیئرمین نیب جاوید اقبال نے اپنے دورہ فیڈریشن میں بزنس مینوں کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ نیب کسی بزنس مین کو ہراساں نہیں کرے گا اور نیب کسی بزنس مین کو دوران انکوائری گرفتار نہیں کرے گا لیکن نیب نے اپنے چیئرمین کی بزنس مینوں کو دی گئی یقین دہانی اور کوئی ثبوت نہ ہونے کے باوجود میر شکیل الرحمٰن کو گرفتار کرکے 8 ماہ قید رکھا۔میر شکیل الرحمٰن کی رہائی کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ نیب کیس دراصل میر صاحب اور جنگ جیو گروپ کی آزادیٔ اظہارِ رائے سلب کرنے کیلئے گھڑا گیا تھا۔
جعلی کیس میں اگر 8 ماہ تک بغیر جرم پابندِ سلاسل رکھنے کا یہ واقعہ امریکہ یا کسی مغربی ملک میں پیش آتا تو متاثرہ شخص کسی عدالت کا سہارا لے کر ادارے پر ہتکِ عزت کا دعویٰ کرکے کروڑوں کا ہرجانہ وصول کرسکتا تھا مگر میر شکیل الرحمٰن نے بریت کے بعد نہ خود کو ایک مظلوم کے طور پر پیش کیا اور نہ ہی نیب کے خلاف کوئی مہم چلائی تاہم اس خود ساختہ کیس سے نیب کی رہی سہی ساکھ بھی متاثر ہوئی۔
جنگ گروپ کے ساتھ یہ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ ماضی میں بھی مختلف حکومتوں نے جنگ گروپ کو حق اور سچ لکھنے پر انتقام کا نشانہ بنایا ۔ تب یہ پابندیاں ڈکٹیٹر کے وقت میں لگائی گئی تھیں مگر آج ریاست مدینہ کی دعویدار جمہوری حکومت میں میر شکیل الرحمٰن کو گرفتار کیا گیا۔
تقسیمِ ہند سے قبل برطانوی راج میں میر شکیل الرحمٰن کے والد اور جنگ اخبار کے بانی میر خلیل الرحمٰن مرحوم کو اپنے اخبار میں سچ لکھنے کی پاداش میں جیل کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑی تھیں۔ آج اُن کے بیٹے نے بھی حق و سچ لکھنے کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں مگر اپنے باپ کے دیے گئے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔حکومت اور نیب کی یہ خام خیالی تھی کہ میر شکیل الرحمٰن کو پابند سلاسل کرکے ان کے ارادوں کو کمزور اور جیو اور جنگ گروپ کی آواز کو دبایا جاسکے گا مگر حکومت اور نیب کے دونوں مقاصد پورے نہ ہو سکے۔ جیو نیوز آج بھی ملک اور بیرون ملک سب سے زیادہ دیکھا جانے والا چینل اور جنگ گروپ کے اخبارات میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والا اخبار ہے۔(بشکریہ جنگ)۔۔