تحریر: محمود شام۔۔
آج اتوار ہے۔ اپنی اولادوں سے مل بیٹھنے کا دن۔ اوّل تو ناشتہ بھی ان کے ساتھ کریں۔ مگر چھٹی والے دن ناشتہ عموماً تاخیر سے ہوتا ہے۔ ماڈرن لوگوں نے ناشتہ اور دوپہر کے کھانے کو ایک کرکے ’برنچ‘ کا نام دے دیا ہے۔ آج کل سردیاں ہیں۔ جاڑے کے پکوان تو بہت مشہور ہیں۔ اور بہت لذیز بھی۔ یہ بہت تقویت بخش بھی ہوتے تھے۔ مجھے بہت تسکین ہوتی ہے جب بالکل اجنبی لوگ بھی اتوار کا حوالہ بچوں کے ساتھ نشست کا دیتے ہیں۔وقت کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔ تسلسل قوموں کی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔ آج کل جہاں جہاں انتشار غالب ہے وہ حال۔ ماضی۔ مستقبل میں خلائوں کے باعث ہی ہے۔ یہ خلا قیادتیں پُر کرتی ہیں۔ قیادت صرف سیاستدان ہی نہیں کرتے۔ قیادت تو ایک عبادت ہے۔ جو علمائے کرام بھی کرتے ہیں۔ وائس چانسلرز۔ پرنسپلز۔ ہیڈ ماسٹرز اور اساتذہ بھی۔ ہیڈ ماسٹر کا انتہائی اہم ادارہ ہم نے بتدریج ختم کردیا ہے۔ آج کل اسکول کے سربراہ کو بھی پرنسپل کہا جارہا ہے۔ سرکاری اسکولوں میں شاید ہیڈ ماسٹر اب بھی ہو۔ مگر سرکاری اسکول جوبہت وسیع بنائے جاتے ہیں اب وہ ویران ہی رہتے ہیں۔ انگلش میڈیم کے لالچ میں ہماری نسلوں کا بچپن لڑکپن۔ چھوٹے چھوٹے فلیٹوں۔ مکانوں میں گزر رہا ہے۔ پھر ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ اب پاکستانی تنگ نظر کیوں ہوتے جارہے ہیں۔
ان ہی دنوں ایک خوش خبری سننے میں آئی ہے کہ پاکستان کے مستقبل کو خود کفیل بنانے کا خزانہ رکھنے والے ریکوڈک کے تنازع پر ٹی تھیان کمپنی اور پاکستان کے درمیان ماورائے عدالت کچھ مفاہمت ہورہی ہے۔ جس کے نتیجے میں 5ارب ڈالر کا جرمانہ ختم کیا جاسکتا ہے۔ یہ نہ صرف موجودہ پاکستانی نسل بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی اچھی خبر ہے۔ اس کی تصدیق عارف حبیب بھی کررہے ہیں۔ جنہوں نے پاکستان کے قدرتی وسائل کو بروئے کار لانے کے لیے ایک بڑا ادارہ قائم کیا ہے۔ میں تو بچوں بڑوں سب سے کہتا ہوں کہ ہماری توجہ کا مرکز بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع یہ خزانہ ریکوڈک ہونا چاہئے۔ جہاں سونا تانبا اور دوسرے ذخائر پاکستان کو خوشحال کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔
آج میں پاکستان کے سب سے بڑے۔ مستحکم اور نسل در نسل اطلاعات پہنچانے والے۔جنگ جیو میڈیا گروپ کے عظیم بانی میر کاروان صحافت۔ میر خلیل الرحمن کی یادیں بکھیرنا چاہتا ہوں۔ دو دن بعد ان کی برسی ہے۔ 25جنوری سال بھر یاد رہتی ہے۔ ایک دن سب کو جانا ہے۔ مگر ایسی ہستیاں نہ صرف دنیا میں ایسے ادارے چھوڑ کر جاتی ہیں جو ذہن روشن رکھتے ہیں۔ جن کے توسط سے ہزاروں گھروں کے چولہے جلتے ہیں۔ جب وہ اپنے خالق حقیقی کے حضور پہنچتے ہیں تو وہاں بھی ان کا خیر مقدم کیا جاتا ہے کہ اللہ ان سے راضی۔ وہ اللہ سے راضی۔ وہ اس کے قریبی بندوں میں شُمار ہوتے ہیں۔ ان کے درجات بلند ہوتے ہیں۔ انہیں ایسے باغات ملتے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوتی ہیں۔ ایسی ہستیاں۔ لائق تقلید ہوتی ہیں جودنیا میں بھی ایسے باغات لگا جاتی ہیں جن کی ہریالی سے جن کے پھلوں سے نسلیں مستفید ہوتی ہیں۔ ایک عامل صحافی کی حیثیت سے کم از کم تین دہائیاں تو ان کی معاملہ فہمی۔ انتظام و انصرام کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا ہے۔ان کا یہ سفردہلی کے ایک چھوٹے سے دفتر سے تو دوسری جنگ عظیم کے دوران ہی شروع ہوتا ہے۔ پھر قیام پاکستان کے فوراً بعد ملک کے دارُالحکومت کراچی میں پاور ہائوس کے قریب ایک چھوٹی سی دکان سے نو آزاد قوم کو با خبر رکھنے کے لیے از سر نو۔ آج کل بزنس کی اصطلاحات میں Innovative, Enterprising, Enterpreneur کا بہت ذکر ہوتا ہے۔ 75 سال پہلے ایک بلند قامت۔ زیر لب متبسم اور تن تنہا ان سب خصوصیات کا مجسم پیکر تھا۔ چند فٹ کے ایک دفتر سے شروع ہونے والا گروپ آج کراچی۔ راولپنڈی۔ اسلام آباد۔ کوئٹہ۔ لاہور۔ ملتان۔ پشاور میں بیرون ملک لندن۔ نیویارک میں جنگ جیو کے دفاتر اپنی آغوش میں کتنے با کمال صحافیوں۔ پروڈیوسروں۔ ڈائریکٹروں۔ ٹیکنیشوں۔کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ یقیناً ان کے وژن میں یہ سب کچھ تھا اور وہ جب اس دنیا سے گئے ہیں تو انتہائی اطمینان اور تسکین قلب کے ساتھ۔
ڈھاکا میں موتی جھیل کے قریب جنگ کا دفتر بھی مجھے یاد ہے۔ ہر روز کراچی سے ’جنگ‘ کی کئی ہزار کاپیاں پی آئی اے سے ڈھاکا پہنچتی تھیں۔ اور قارئین کی پیاس بجھاتی تھیں۔ وہ مستقبل میں سانس لیتے تھے۔ دنیا بھر میں صحافت کے بدلتے رجحانات پر ان کی نظر رہتی تھی۔ رسل و رسائل کے ذرائع۔ طباعت کی مشینیں۔ خبر پہنچانے کے آلات۔ جنگ گروپ کو ان میں ہمیشہ پیش پیش رکھا۔ فیکس مشین ہم نے سب سے پہلے ان کے دفتر میں دیکھی۔ اس سے نکلتی خبریں۔ تصویریں ہمیں حیران کردیتی تھیں۔ وہ باہر جاتے تو مستقبل کے ان آلات پر ہی توجہ رکھتے۔ میگزین جرنلزم میں بھی سبقت لی۔ ’اخبار جہاں‘ 1967میں ایسا نکالا کہ برسوں سے مارکیٹ پر چھائے ہفت روزے ہاتھ ملتے رہ گئے۔ کوئی حکمران ایسا نہیں ہے جو ’جنگ‘ پر برہم نہ ہوا ہو۔ سیاسی اور فوجی دونوں۔ آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی کے باوجود ہم نے انہیں مصیبت کے وقت تنہا ہی جنگ لڑتے دیکھا۔
ٹارزن کی کہانی کو لوگ اب بھی یاد کرتے ہیں۔ حسین جین ڈولنگر کی سفری وارداتیں بھی۔ میر صاحب جانتے تھے کہ لوگ خبر کے ساتھ ساتھ حیرتوں اور عجائب کا تجسس رکھتے ہیں۔ اس کے لیے ایسی کہانیاں ناگزیر ہیں۔ سیاہ و سفید سے رنگین طباعت کی طرف انہوں نے سب سے پہلے رجوع کیا۔ کمپیوٹرکی کتابت کا خطرہ بھی جنگ نے مول لیا۔ یہ پروگرام بھی بہت مہنگا خریدا۔ وہ احمد جمیل مرزا اور مطلوب الحسن سید کے ساتھ ساتھ عظیم محسن اُردو ہیں۔ اگر نوری نستعلیق کی وہ سرپرستی نہ کرتے تو اُردو کتنی پسماندہ رہ جاتی۔ مشینوں کے ہی نہیں انسانوں کے انتخاب میں بھی وہ ہمیشہ سرگرم رہے۔ ہجرتوں کے سلسلے جاری تھے۔ بھارت سے جو بھی جید شاعر۔ نقاد۔ افسانہ نگار۔ ناول نویس پاکستان پہنچتے تو میر صاحب ان سے رابطہ کرتے۔’ جنگ‘ کے لیے کالم لکھواتے۔ ’جنگ‘ دائیں بائیں۔ رجعت پسند۔ ترقی پسند سب کا تھا۔ ان کا نصب العین یہ تھا کہ ’جنگ‘ میں ہر پاکستانی کو اپنی دلچسپی ملنی چاہئے۔ اپنے کارکنوں کی شادی غمی میں شرکت ہمیشہ کرتے۔ کتنے گھروں کی کفالت خاموشی سے ہوتی رہی۔ ان کے دفتر میں پاکستان کے بڑے صنعت کار احمد دائود کو اکثر تبادلۂ خیال میں مصروف دیکھا۔ جمیل الدین عالی بھی اس نشست کا حصّہ ہوتے۔ پیر علی محمد راشدی یاد آرہے ہیں۔ قاضی عبدالمجید عابد۔ قاضی اکبر۔ شورش کاشمیری۔ قدرت اللہ شہاب۔ ابن انشاء۔
اللہ تعالیٰ ان کے درجات مزیدبلند کرے۔ اور ان کے قائم کردہ اداروں کو اپنے فرائض منصبی پوری دیانت اور خلوص نیت سے انجام دینے کی توفیق دے۔(بشکریہ جنگ)۔