meer javed rehman ki chothi barsimeer javed rehman ki chothi barsimeer javed rehman ki chothi barsimeer javed rehman ki chothi barsimeer javed rehman ki chothi barsi

میر جاویدرحمٰن کی چوتھی برسی

تحریر: اخلاق احمد۔۔

جیسے زندگی کی کچھ خوشیاں، کچھ غم، کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ ہمیشہ یاد رہتے ہیں، بالکل اسی طرح کچھ لوگ ہوتے ہیں جو بچھڑ جاتے ہیں مگر بھلائے نہیں بھولتے۔ میر جاوید رحمٰن انہی میں سے ایک تھے۔ جنگ گروپ کے چیئرمین،اخبار جہاں کے ایڈیٹر انچیف، صحافتی حلقوں کی جانی پہچانی شخصیت، پاکستان میں میگزین جرنلزم کو نئی بلندیوں تک لے جانے والے۔ وہ مجھ جیسے بہت سے صحافیوں کے باس رہے۔ مگر ایک عجیب وضع کے باس جو بیک وقت افسر، محبوب، استاد، دوست اور مینٹور بھی تھے۔ لگ بھگ چوالیس برس قبل ان سے ایک دفتری تعلق استوار ہوا تھا۔ یعنی ایڈیٹر انچیف اور عام سے سب ایڈیٹر کا تعلق۔ اب سوچتا ہوں، تعلق کی طاقت کا اور گہرائی کا، وقت سے خاص علاقہ ہوتا ہے۔ ربع صدی ساتھ گزر جائے تو تعلق شاید روح کے اندر تک اتر جاتا ہے۔ میں نے یونیورسٹی کی تعلیم کے بعد جنگ کراچی سے سفر کا باقاعدہ آغاز کیا تھا۔ وہیں اگلے اٹھائیس برس گزرے جن میں تھوڑا بہت لکھنا پڑھنا سیکھا، وہیں مقدور بھر شناخت بنی، وہیں بالوں میں سفیدی اتری، اور وہیں وہ میر جاوید رحمٰن ملے جن سے زندگی بھر کا عجیب و غریب تعلق استوار ہؤا۔ دکھ سکھ بانٹنے والا تعلق۔ پریشانیاں اور خوشیاں شئیر کرنے والا، کچھ نیا کرنے کی کوششوں میں مصروف رہنے اور ہر نئی چیز سیکھنے سکھانے والا تعلق ۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر قہقہے لگانے یا بے سبب ناراض ہو جانے والا تعلق۔ میر جاوید رحمٰن کا مزاج دھوپ چھاؤں جیسا تھا۔ وہ ایک بہت محدود حلقے میں خود کو مطمئن محسوس کرتے تھے، بہت دیر بعد کھلتے تھے۔ مگر ان کے اندر وہ جو ایک بہت پرجوش صحافی اور ایک بے قرار منتظم تھا، وہ چھپائے نہ چھپتا تھا۔وہ ایک پُراعتماد باس تھے اور وہ چاہتے تھے کہ ان کی ٹیم کے لوگ بھی پُراعتماد ہوں، فیصلوں کا بوجھ اٹھانا سیکھیں۔ کئی بار ہم مشکل فیصلوں کے وقت ان کی طرف دیکھتے تھے تو وہ جھنجھلا جاتے تھے۔ یوں رفتہ رفتہ انہوں نے فیصلہ سازی کے شعبہ میں اپنی ٹیم کی تربیت کی، یہ سکھایا کہ درست فیصلے کا کریڈٹ لینا اور غلط فیصلے پر تنقید برداشت کرنا اس پورے کھیل کا حصہ ہے۔ یاد آتا ہے کہ ایک بار ہم نے اسامہ بن لادن کے بارے میں ٹائٹل اسٹوری تیار کی۔ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسروں سے مضامین لکھوائے۔ یہ 2001 کی بات ہے۔ اخبار جہاں کا ٹائٹل ان دنوں منگل کی دوپہر چھپنا شروع ہو جاتا تھا اور آخری کاپی بدھ کی شام کو پریس بھیجی جاتی تھی۔ منگل کی شام ساڑھے پانچ بجے کے قریب میں نے ٹی وی پر اچانک وہ منظر دیکھا جس نے پوری دنیا کو ہلا ڈالا تھا۔ یہ نیویارک کے ٹوئن ٹاورز سے دوسرے طیارے کے ٹکرانے کا منظر تھا۔ اب ایک طرف ہمارا پورا ٹائٹل چھپ چکا تھا، دوسری طرف دنیا بدل گئی تھی جس میں اس ٹائٹل کی گنجائش نہیں تھی۔ جاوید صاحب سے کوشش کے باوجود رابطہ نہ ہو سکا تو میں نے اپنے طور پر نیا ٹائٹل اور نئی ٹائٹل اسٹوری تیار کرنے کا فیصلہ کیا جس کا مطلب تھا لاکھوں کا نقصان۔ چھپ جانے والے ڈیڑھ لاکھ ٹائٹلز اور سینٹر اسپریڈ کو ردی کی نذر کر دینے کا فیصلہ رات کو جاوید صاحب کے علم میں آیا تو وہ آرٹ اسٹوڈیو میں آئے جہاں نیا ٹائٹل ڈیزائن ہو رہا تھا۔ سارے انتظامات دیکھ کر مجھ سے بولے۔ “بھئی آج جو کام کیا ہے، اس پر میری طرف سے ڈنر ہے، سب کے لئے۔” ان کی خوشی دیدنی تھی۔ شاید اس بات کی خوشی کہ ان کی ٹیم نے خود یہ فوری فیصلہ کیا۔ اخبار جہاں ان کی زندگی کا محور تھا۔ مقابلے کی اس دنیا میں نصف صدی تک اخبار جہاں کو پاکستان کے تمام جرائد سے زیادہ مقبول بنائے رکھنا میر جاویدرحمٰن کا وہ خواب تھا جس کی تعبیر پانے کے لئے انہوں نے اور ان کی پوری ٹیم نے دن رات محنت کی اور سرخ رو ہوئے اور جرائد کی دنیا پر حکمرانی کرنے کے خواب کو تعبیر بخشی۔ سچی بات یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان میں میگزین جرنلزم کو بام عروج پر پہنچایا۔ میر جاوید رحمٰن کے ساتھ کام کرنا بظاہر ایک نہایت دشوار کام تھا۔ لیکن دشواری کی اس سرزمین پر قدم رکھنے کے بعد ہی اندازہ ہوتا تھا کہ سیکھنے کا اتنا اچھا موقع اردو صحافت میں مشکل سے ہی ملتا ہے۔ جاوید صاحب ایک اعتبار سے مسٹر پرفیکشنسٹ تھے۔ یعنی چاہتے تھے کہ ہر کام اول درجے کا ہو۔ وہ اپنی پوری ٹیم کو، جس میں ایڈیٹوریل اور آرٹ ڈپارٹمنٹ کے اہم لوگ شامل ہوتے تھے، ہر کام میں اپنے ساتھ شامل رکھتے تھے۔ صفحات کی تزئین، سرخیوں کی آرائش، تصویروں کا انتخاب، ہر کام میں کئی لوگ ان کے ساتھ ساتھ رہتے تھے۔جاوید صاحب کے ساتھ گزرنے والے ماہ و سال ایسی ہی یادوں کا مجموعہ ہیں۔ ان میں ایک شعلہ جیسی توانائی اور روشنی اور حرارت تھی۔ انہوں نے کتنے ہی لوگوں کو آگے بڑھایا، کتنے ہی لوگوں سے تعلق نبھایا۔ ان کو رخصت ہوئے چار سال ہو چکے ہیں لیکن ان کی آواز اب تک کانوں میں گونجتی ہے۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔(اخلاق احمد)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں