تحریر: علی محسن رضا
سب سے پہلے تو میں پھر وہی بات دہراؤں گا کہ مظلوم کا ساتھ دینا ہی حسینیت ہے اور آج کے دن کا درس ہے۔ مظلوم لڑکی اگر عُریاں لباس پہن کر بھی پارک میں داخل ہوتی اور اس کے ساتھ یہ سب ہوتا تو بھی ہم اسے ظلم ہی کہتے۔ لڑکی اکیلی آتی اور اس کے ساتھ یہ سب ہوتا تب بھی اسے ظلم ہی کہتے۔ ایسے ظلم کا کوئی جواز نہیں، اس کی کوئی جسٹیفکیشن نہیں، ایسے ظالموں کی بھرپور مذمت ہے، ان کی ہر دلیل رد ہے اور ان کے لئے سخت سے سخت سزا کا مطالبہ ہے۔
اب آتے ہیں اصل واقعے کی جانب، میں کل سے اس سانحے کی تقریباً بیس سے پچیس وڈیوز دیکھ چکا ہوں جو ابتدا سے انتہا تک کے تمام مراحل کی بھرپور نشاندہی کر رہی ہیں اور مجھے یقین ہے کہ ایف آئی اے بھی جلد یہی نتیجہ پیش کرے گی جو میں یہاں لکھنے جا رہا ہوں۔
میں نے کل شام اپنے ان تمام دوستوں کو فون کیا جن کے بارے میں مجھے شک تھا کہ یہ ضرور اس رات پارک میں ہوں گے، اس کے علاوہ وہ لوگ جن کے پاس میں کرائے پر رہتا تھا ان کو بھی فون کیا، پھر اپنے شاگردوں کو فون کیے لیکن کسی نے چشم دید گواہ ہونے کا دعویٰ تو نہیں کیا لیکن ہر انسان نے کچھ نہ کچھ ایسا ضرور بتایا جسے جوڑتے ہوئے اصل واقعہ سمجھ میں آتا ہے۔
جیسے کہ میری بہن بتا رہی تھی کہ جب عیدالضحیٰ پر ہم بچوں کی ضد سے مجبور ہوکر مینارِ پاکستان گئے تو وہاں ایک ہنگامہ سا برپا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ دو ٹک ٹاکر گروہ آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ ان کا جھگڑا اس حد تک بڑا کہ سینکڑوں لڑکے ایک جانب مار پیٹ کو تیار تھے اور سینکڑوں دوسری جانب۔ ان حالات سے گھبرا کر ہم اس دن جلد ہی پارک سے باہر نکل آئے۔ (یعنی ہراساں ہوکر گھر آگئے)
اگر آپ نے حالیہ سانحے کی وڈیوز دیکھی ہیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ واقعہ کچھ یوں شروع ہوا جب لڑکی نے مینارِ پاکستان کے گرد موجود بڑی پتھروں کی دیوار جس پر خاردار تاریں لگا دی گئی ہیں اور جس کے اوپر بغیر قانونی اجازت چڑھنا منع ہے پر چڑھنے کی کوشش کی۔
لڑکی کے ساتھ موجود اُس کے ساتھیوں نے اُسے اوپر کھینچا اور اسی دوران وہ مخالف گروپ جو دس پندرہ لڑکوں پر مشتمل تھا موقع دیکھ کر میدان میں کُود پڑا۔
اس مخالفت کو اگر آپ سمجھنا چاہتے ہیں تو معروف ایوارڈ یافتہ یوٹیوبر Ducky Bhai اور shaam idress کا جھگڑا سامنے رکھیں۔ اسلام آباد کے ایک بہت بڑے مال میں، ہزار انتظامات کے باوجود ڈَکی بھائی کے فینز نے شام ادریس اور اس کی بیوی کو اس قدر ہراساں کیا تھا کہ ان کو اسٹیج چھوڑنا پڑا جبکہ شام کی بیوی کا دعویٰ ہے کہ لوگوں نے اُسے دھکے تک دیے۔ اس کے علاوہ ایک اور مثال ٹک ٹاک اسٹار ندیم نانی والا یا شاید علی حیدری کی ہے جسے اسی طرح چند روز قبل کسی گروہ نے بیچ سڑک میں گاڑی سے نکال کر تشدد کا نشانہ بنایا تھا لیکن وہ چونکہ لڑکا تھا تو یہ چار سو افراد جیسے قصے مشہور نہ ہوئے۔
یہاں جو بات قابلِ غور ہے وہ یہ ہے کہ آپ اور میں تو جانتے ہی نہیں ڈَکی بھائی کون ہے؟
شام ادریس کون ہے؟
ان کا آپس میں کیا جھگڑا ہے؟
تو ہمیں کیا ضرورت ان کو ہراساں کرنے کی؟
ان کو ہراساں کرنے تو صرف وہی لوگ دور دور سے پہنچے تھے جو ڈَکی کو جانتے تھے ہے نا؟
پھر ظلم کی انتہا دیکھئے کہ اس مال میں پانچ چھے سو لوگ تو موجود تھے لیکن الزام صرف ڈَکی بھائی کے فینز پر لگا پورے اسلام آباد یا مال پر نہیں اور نہ ہی پورے پاکستان کو لتاڑا گیا حالانکہ شام ادریس کی بیوی نے جنسی ہراسگی کا دعویٰ بھی کیا تھا۔
اب اسی طرح کا سانحہ لاہور میں ہوتا ہے، لڑکی پہلے سکون سے بلاخوف و خطر پارک میں ایک اسٹار کی طرح ممتاز حیثیت سے گھومتی ہے لیکن کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آتا (وڈیوز موجود ہیں) لیکن جیسے ہی وہ ممنوعہ دیوار پر چڑھنے لگتی ہے تو مخالف پارٹی جو اب تک موقع کی تلاش میں تھی آگے بڑھتی ہے۔ یہاں ایک اور بات قابل غور ہے کہ لڑکی کی اپنی ٹِیم اس قدر نڈر اور مضبوط تھی کہ جب وہ ممنوعہ دیوار پر چڑھنے لگی تو کوئی سیکیورٹی گارڈ اسے روک نہ سکا ورنہ ہمیں تو جنگلے کے پاس بھی کوئی نہیں جانے دیتا۔ پھر اتنی اونچی دیوار پر خاردار تاروں کی موجودگی میں ایک عورت بلکہ مرد کا بھی چڑھنا اتنی بڑی حماقت ہے کہ میرے پاس اس کو بیان کرنے کے لئے الفاظ نہیں۔ یہ حرکت تو ویسے ہی خودکشی تھی۔
ایک وڈیو میں واقعے کی ابتدا میں تین چار لڑکے لڑکی کو ٹانگوں سے کھینچ کر نیچے گِرانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ دس سے بیس لڑکے لڑکی کو اوپر سے پکڑ کر سہارا دے رہے ہیں۔ اس دوران جو شخص وڈیو ریکارڈ کر رہا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں
’’اس کو پانی میں پھینک دو ہاہاہاہا۔۔ اس کو ادھر گِرا دو بڑی اسٹار کو۔۔۔۔‘‘ (جوکہ ذاتی دشمنی کی جانب اشارا کرتے ہیں اور اس بات کا ثبوت بھی ہیں کہ جو لڑکے بدتمیزی کر رہے ہیں وہ اس کے ساتھی ہیں)
اس وقت لڑکی کے گرد جو ٹوٹل ہجوم دکھائی دے رہا ہے اس کی تعداد تیس سے چالیس ہے جن میں سے تیس کے قریب لڑکے لڑکی کی حفاظت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، دس پندرہ شر پسندی پر تُلے ہیں جبکہ باقی ناجانے کس ڈر سے آگے نہیں بڑھ رہے۔ (وہ ڈر یہی تھا کہ یہ غنڈے ان پر بھی ٹوٹ پڑیں گے، ظاہر ہے اپنی تمام تر غیرت کے باوجود میں بھی ڈرتا اور زیادہ سے زیادہ پولیس ہی کو بُلاتا)
یہ معاملہ ذاتی دشمنی کا تھا۔
ٹک ٹاک کی دشمنی کا تھا۔
لڑکی زمین پر رہتی تو حفاظت میں رہتی۔
زمین پر ہر کسی کے لئے اسے بچانا ممکن تھا۔
پارک میں بے شمار سیکیورٹی موجود ہوتی ہے زمین پر وہ اسے ریسکیو کر سکتے تھے۔
لیکن جب لڑکی نے دیوار پر چڑھنے کی غلطی کی تو حالات ایسے بے قابو ہوئے کہ بے غیرتوں کو موقع مل گیا اور بچانے والوں کی کوئی تدبیر کامیاب نہ ہوئی۔
لڑکی کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ اسی مقام پر ہوا جہاں لڑکی کو بچانے والے اسے دیوار پر سے اوپر کھینچ رہے تھے اور ظالم نیچے سے۔
ایسی جگہ پر بچانے والے سے بھی کپڑے پھٹ جاتے ہیں اور نوچنے والے تو تھے ہی بے غیرت۔
اگر بچانے والے لڑکی کو چھوڑ دیتے تو وہ نیچے گِر کر بھگدڑ کی نذر ہوجاتی۔ (لڑکی اگر دیوار سے گِری بھی تو اسی وجہ سے موت سے محفوظ رہی کہ کچھ لوگوں نے اسے اوپر سے تھامے رکھا)
چونکہ لڑکی ایسی حالت میں تھی کہ چار سو غیر مسلح افراد اسے کسی بھی صورت بچا ہی نہیں سکتے تھے اس لئے سارے مجمع کو الزام دینا بھی عقلمندی نہیں۔ (حالانکہ وہاں چار سو لوگ تھے ہی نہیں پھر دیوار سے چند فیٹ ہٹ کر ایک اور بڑی خاردار تار ہے یعنی اگر وہاں بھگدڑ مچتی تو لڑکی سمیت بہت سے لوگ مارے جاتے یا زخمی ہوتے، میں ایسی ہی ایک بھگڈڑ میں ایک جنگلے کا نشانہ بنا تھا اور ایک سلاخ میری کمر میں چند انچ تک گڑ گئی تھی جس کا نشان ابھی بھی موجود ہے یعنی ہجوم موت کا دوسرا نام ہے)
ہاں اگر عورتوں کو لگتا ہے کہ ہم مرد سُپر مین ہیں تو وہ جو مرضی کہتی رہیں، یہ ہماری بہنیں ہیں، بہنوں کو بھائیوں کی طاقت پر مان تو ہوتا ہی ہے مگر میری بہنو مرد بھی انسان ہی ہوتا ہے اور جس مقام پر وہ بیچاری لڑکی پھنس چکی تھی وہاں سے اسے اسلحے کی طاقت کے بغیر بچانا مشکل تھا اور اگر کوئی مرد ہیرو بننے کی بیوقوفی کرتا بھی تو ممکن تھا لڑکی نیچے گرتی اور ماری جاتی۔ (میرا جس روز مینار پاکستان جانا ہوا میں دیوار کی تصویر اپلوڈ کر دوں گا تاکہ میری کسی بہن کو میری بات میں شک نہ رہے)
ابتدا میں شرپسندوں کا ارادہ لڑکی کو دیوار سے گِرانے کا تھا تاکہ وہ وڈیو بنا کر لگا سکیں (جوکہ ٹک ٹاک پر آج کل ٹرینڈ چل رہا ہے کہ مختلف گروہ ٹک ٹاکرز کی پٹائی کر کے وڈیوز لگاتے ہیں) لیکن جب کھینچا تانی ہوئی تو لڑکی کے کپڑے پھٹ گئے جوکہ ایسے حالات میں پھٹنے ہی تھے۔
جب کپڑے پھٹ گئے تو عام عوام کا اسے ریسکیو کرنا مزید مشکل ہوگیا اور ٹک ٹاکرز جو کہ ہے ہی جاہلوں کی دنیا وہ لائیو بلاگنگ کے لئے اردگرد اکٹھے ہوتے رہے۔ ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ اسے وہ کلپ مل جائے جو ملین ویوز لے۔ (یہ تھا چار سو کا ہجوم جو ان کے اپنے فینز تھے اور دور دور سے بلائے گئے تھے)
اب زرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے اس سارے واقعے میں ایک شریف مرد کا کیا قصور تھا؟
جاہلوں کا وہ ٹولا جسے پولیس بھی قابو نہ کر سکی اسے عام مرد کیسے قابو کر لیتے؟
پھر کل سے چار سو مردوں کا ٹرینڈ کیوں چلایا جا رہا ہے؟
اب میں آخری بار خدا کی قسم آخری بار یہ مطالبہ کر رہا ہوں کہ
- میں یہ نہیں کہتا کہ لڑکیاں فحش لباس مت پہنیں۔
- میں یہ بھی نہیں کہتا کہ وہ اکیلی باہر مت نکلیں۔
- میں یہ بھی نہیں کہتا کہ وہ ٹِک ٹک نہ بنائیں۔
- میں یہ بھی نہیں کہتا کہ وہ اپنی تصاویر اپلوڈ نہ کریں۔
1.لیکن میں بس یہ کہتا ہوں کہ عوامی مقامات پر ٹک ٹاکرز کی ایسی سرگرمیوں پر پابندی لگائی جائے۔
- جس طرح اس لڑکی نے اعلان کر کے پہلے اپنے جاہل فینز اکٹھے کیے اس طرح کی ہلڑ بازی پر پابندی لگائی جائے۔
- دنیا بھر میں کہیں بھی ایسا کوئی اجتماع کرنا ہو تو پہلے اس کی کلئیرینس لینی پڑتی ہے لیکن یہ ٹک ٹاکرز آئے روز جہاں دل کرتا ہے ہجوم جمع کر لیتے ہیں۔
- ان کا بُلایا ہوا ہجوم نہ صرف پارک کا ماحول خراب کرتا ہے بلکہ وہاں آئے عام عوام کو بھی ہراساں کرتا ہے۔
- ان کا بلایا ہوا جو ہجوم کیمرے کے سامنے ایک اسٹار کو یوں مسل سکتا ہے وہ پارک میں موجود باقی فیملیز کے ساتھ کیا کرتا ہوگا۔
- میں ان کی بدتمیزیوں کا عینی شاہد ہوں۔
- میں ایک لڑکا ہوکر ان ٹک ٹاکرز کی موجوگی سے متاثر ہوتا ہوں تو لڑکیوں کا عالم کیا ہوگا۔
یہاں کچھ لوگ یہ سوال کریں گے کہ ٹک ٹاکرز کے علاوہ بھی تو لوگ عورتوں کو ہراساں کرتے ہیں؟
جی ہاں عورت کو پوری دنیا میں تنگ کیا جاتا ہے، کوئی مقام ایسا نہیں جہاں مرد عورت کو تنگ نہ کرتے ہوں لیکن
- اگر یہ ٹک ٹاکرز اپنے ملاقات پروگرام پارکوں میں منعقد نہ کریں تو وہاں ستر فیصد لوگ مہذب ہوتے ہیں۔
- جو تیس فیصد لوگ شر پسند ہوتے ہیں ان کو بھی اس انتہا تک پہنچنے کا موقع نہیں ملتا اور اگر وہ کوشش کریں بھی تو ان کو روکنا آسان ہوتا ہے۔
- لڑکا یا لڑکی ممنوعہ دیوار پر چڑھ کر کسی قسم کے خطاب کی کوشش نہیں کرے گی تو اس کو ریسکیو کرنا ممکن ہوگا۔
- ٹک ٹاکرز آدھے سے زیادہ پارک کو اپنی شُوٹنگ کے لئے بُک کر لیتے ہیں لیکن اگر ان پر پابندی ہوگی تو عام عوام بھی کھل کر تفریح کر سکیں گے۔
آخر میں میری التجاء بچوں سے ہے، جو بچے، جو اسٹوڈیٹس مجھے پڑھتے ہیں یہ التجا فقط ان سے ہے کیونکہ بڑوں کو نصیحت کرنے کی میری اوقات نہیں
- کچھ بھی ہوجائے اپنے ملک کی بدنامی کا باعث مت بنا کریں۔
- کچھ بھی ہوجائے اپنے ملک کے خلاف مواد شئیر مت کیا کریں۔
- ایسے سانحات پوری دنیا میں ہوتے ہیں لیکن کوئی بھی قوم یوں اپنے ملک کو بدنام نہیں کرتی۔
- یاد رکھیں دنیا میں آپ کی پہچان فقط پاکستان ہے.
- اپنی پہچان کو مثبت رکھیں۔
- ہم گلوبل ویلیج میں ہیں۔
- آنے والے دنوں میں آپ کو بین الاقوامی سطح پر ہی کام کرنا ہے ورنہ بے روزگاری کی مصیبت سے نکل نہ پاؤ گے۔
- اب آپ کو انٹرنیٹ کے ذریعے پوری دنیا میں نوکریاں کرنی ہیں کیونکہ پاکستان میں اب نوکریوں کی گنجائش باقی نہیں۔
- آپ کے ملک کی پہچان مثبت ہوگی تو دنیا آپ کو کام دے گی۔
- آپ اپنے ہی ملک کے خلاف ٹرینڈ چلائیں گے تو اس کا نقصان بھی آپ ہی کو ہوگا کیونکہ فیوچر بہت مختلف ہونے والا ہے۔
- اس ملک کی اصلاح بھی آپ ہی نے کرنی ہے اور یہ ان چند روزہ ٹرینڈز سے نہیں بلکہ آپ کی وطن سے محبت سے ممکن ہے۔
- آپ جن لوگوں کی پوسٹس شئیر کرتے ہیں یہ ملک دشمن عناصر ہیں۔
- یہ لاشوں کے تاجر ہیں۔
- یہ آپ کو مروا کر خود بیرون ملک کی پی آر لے لیں گے۔
- یہ آپ کی بھوک دنیا کو دکھا کر اپنا چولھا جلانے والے ہیں۔
- اپنے وطن سے وفادار رہیں، اپنے وطن کی عزت کرنا سیکھیں، اپنی ہر سانس اپنے وطن کے نام کریں اور اسی کی خوشحالی کے لئے کوشش کریں۔
(علی محسن رضا)۔۔