تحریر: شکیل بازغ
چور اور سپاہی جب باہم طے کرکے ہم آہنگی و ساز باز سے چلیں گے تو عوام لٹے گی پِٹے گی روئے گی سر پیٹے گی سنوائی کہیں نہیں ہوگی جوں جوں ظلم بڑھے گا توں توں برداشت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ میڈیا مالکان اب زہریلے سانپ بن۔چکے۔ ملازمین پر کام کرنے کے قواعد وضوابط تو فوج سے بھی سخت ہوتے چلے جارہے ہیں لیکن تنخواہوں کی بروقت ادائی، ترقی تنخواہوں میں۔اضافے اور لیبر لاز پر عمل درآمد صفر بلکہ ہر ماہ رنخواہوں میں مختلف حیلے بہانوں سے کٹوتی بنا نوٹس بے دخلی اور پھر کئی کئی ماہ تک بقایا جات کی عدم ادائی یہ سب عین قانون کی ناک کے نیچے ہورہا ہے۔ ہمارے ایک دوست نے ایک سابق چیف جسٹس کے میڈیا ورکرز کے حق میں چند بیانات سے مرعوب ہوکر لاہور رجسٹری میں میڈیا مالکان کے خلاف کیس دائر کردیا۔ چند سماعتوں کے بعد چیف صاحب تنک کر بولے میں کیا کروں میں نے کہا تھا کہ جاکر میڈیا میں نوکری کرو۔ جس ملک کے اعلٰی ترین عہدے پر بیٹھے قاضی کا یہ حال ہو وہاں قانون نہیں بلکہ من مانیاں ہوتی ہیں اور وہ ملک نہیں جنگل ہوتا ہے۔ سچ تو یہ ہے اب میڈیا میں بغیر تنخواہ پر ایم فِل کرچکے نئے ملازمین انٹرن شپ کے طور پر لائے جاتے ہیں کئی کئی سال بغیر تنخواہ رگڑا لگتا ہے اور کسی دن اچانک مزید کام لینے سے معذرت کرلی جاتی ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں ملازمین کو بیک جنبش قلم سے فارغ کردیا جاتا ہے سروس سٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے بلاوجہ اچانک نوکری سے برخاستگی پر ادارے بونس تنخواہیں، گریچوئٹی و دیگر قانونی حقوق دینا تو درکنا بقایا جات تک ادا نہیں کرتے۔ ورکر جس لالچ پر یہ سب کچھ برداشت کررہا ہوتا ہے ان میں ترقی تنخواہ میں اضافہ یا عدم بے دخلی شامل ہیں۔ اور یہ سب اچھے ورکر کی طرح برداشت کرنے کے بعد اچانک سے کسی دن بتا دیا جاتا ہے تمہارا دہائیوں کا کریئر تباہ کردیا گیا ہے۔ کوئی قانون تمہیں سن سکتا ہے تو جاو کر دکھاو جو کرسکتے ہو۔ آج کئی ملازمین رو رہے ہیں۔ خود کو لعنتیں دے رہے ہیں کہ ہم میڈیا میں کیوں آئے تھے۔ کارپوریٹ سیکٹر جن سبز باغوں سے شروع کیا گیا تھا آج یہ سیکٹر باقاعدہ ایک جابر جن بن چکا۔ قانون حکومت اور ادارے میڈیا مالکان سے ہم آہنگ ہوچکے۔ عوام کا پرسان حال کوئی نہیں اور جمہوریت زندہ باد۔۔(شکیل بازغ)