تحریر: خرم علی عمران
یہ جدید اصطلاح یعنی میڈیا بڑی ہمہ گیر ہے اور وسعت کی حامل ہے۔ اب صحافت بھی میڈیا ہے چاہے پرنٹ ہو کہ الیکٹرانک،اب شوبز بھی میڈیا ہے اب ٹاک شوز بھی میڈیا میں شمار ہوتے ہیں اب فلم بھی میڈیا،ٹی وی بھی میڈیا،ریڈیو بھی میڈیا وغیرہ وغیرہ۔ تو بڑے بڑے محترم اور ثقہ لوگ اپنی تحریروں اور نجی محفلوں میں میڈیائی مرگ کا واویلا پیش از مرگ منانے میں مصروف ہیں اور بلکل بجا طور پر مصروف ہیں۔ لیکن بنیادی طور پر اب بھی میڈیا کو اگر ہم پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تک محدود رکھتے ہوئے سوچیں کہ کیا ہوا تھا اور کیا ہورہا ہے تو پہلے پرنٹ میڈیا یعنی اخبارات رسائل ہفت روزے وغیرہ ایک معیار اور وقار کے حامل ہوتے تھے چھپے ہوئے الفاظ کا ایک اثر ہوا کرتا تھا اور ایک خبر پر سرکاروں اور ایوانوں میں زلزلے آجایا کرتے تھے۔ میرا قطعا یہ مطلب نہیں کہ اب لکھے ہوئے حرف کی توقیر کم ہوگئی ہے یا اب ایسے اخبار رسالے اور صحافی ناپید ہوگئے ہیں جو درجہء اعتبار رکھتے تھے اور صحافت کو ایک مشن سمجھ کر کیا کرتے تھے اور اس راہ میں کسی بھی مشکل سے نہیں درتے تھے اور کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتے تھے۔
میرا کہنا یہ ہے کہ ایسے لوگ اور اخبارات،رسائل و جرائد اب تو بس آٹے میں نمک کے برابر ہی رہ گئے ہیں جس سے ہم جیسے طالب علم انسپائیریشن لیا کرتے تھے بہت کچھ سیکھا کرتے تھے جن کے نظریات اور آراء سے اختلاف کیا جاسکتا تھا لیکن انکی کمٹمنٹ نیت اور خلوص پر شک نہیں کیا جاسکتا تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ ان کی جگہ وہ آتے چلے گئے جن کا دین ایمان مطمع نظر بس پیسہ اور طاقت کا حصول ہوا کرتا ہے اور وہ آتے گئے اور چھاتے گئے۔ مال بنتا گیا، طاقت اور اختیارات ملتے گئے ہزاروں سے لاکھوں اور لاکھوں سے کروڑوں اربوں تکا کا سفر حیرت انگیز سرعت سے طے کیا گیا۔ سرمایہ داروں نے میڈیا میں دل کھول کر سرمایہ کاری کی تاکہ میڈیا کی طاقت سے اپنے بزنس ایمپائیرز کے دیگر معاملات کو تقویت دی جائے اور ایسا ہی ہوا ۔خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا اور پھر بطور خاص طبقہء اینکراں( مجھے اس تجدیدی لفظ پر معاف کیجئے گا) نے تو بھیا جیسے غضب ہی ڈھا دیا، کیا نہیں کہانیاں اور کیسی کیسی داستانیں اور قصے ہیں کہ الیکٹرانگ میڈیا کے بااختیار اور بڑے ناموں نے چند ایک کے سوا کیسے ذہن سازیاں کیں مختلف ایجنڈے پروموٹ کئے گئے حتی کہ یہ لوگ اپنی مستی میں ان معاملات کو بھی چھیڑنے لگے جو براہ راست ملکی سلامتی اور ریاستی بقا کے معاملات ہیں۔ کچھ تواستعمال کئے گئے۔ اورکچھ بخوبی اور بالرضا استعمال ہوئے تو کچھ نے دوسروں کو استعمال کیا ۔ امریکا جیسے ملک میں بھی جو آزادی اظہار کا بڑا چیمپیئن بنتا ہے ان کے میڈیا کے ادارے ملکی سلامتی کے معاملات پر اپنے اداروں جیسے سی آئی اے پینٹا گون وغیرہ سے گائیڈ لائن لے کر کچھ بولتے یا لکھتے ہیں لیکن یہاں تو بہت سے بلکل ہی شتر بے مہار ہوگئے۔
پھر یہ کہ ابھی جیسے بول ٹی وی کے ایک اینکر مرید عباس مرحوم کے حالیہ افسوسناک سانحے کے بارے میں کئی رپورٹس آ رہی ہیں اور فالو اپ میں کئی انکشافات ہورہے ہیں اور یہ بھی پڑھا کہ جب درجہ دوم کے اینکرز کروڑوں اربوں کے مالیاتی معاملات میں بظاہر الجھے ہوئے ہیں تو درجہ اول کے اور پھر ٹاپ موسٹ لوگ اندون اور بیرون ملک کہاں کہاں کیا کیا سرمایہ کاری کئے بیٹھے ہوں کیا پتہ، یہ ایک قیاس اور گمان ہے جو غلط بھی ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سب کے سب ہی مالیاتی اور اخلاقی اعتبار کے علامہ اقبال کے مرد مومن کی طرح ہوں۔ اور پھر ایسے ہی مطالعے کے رجحان میں کمی پرنٹ میڈیا کو بھی متاثر کر گئی ہے اور نزع کا عالم طاری ہے۔وہ تو بھلا ہو ڈائجسٹوں کا اور رسالوں کا کہ انہوں نے کم از کم قاری کا کتاب سے رشتہ پاپولر ادب اور کہانی کی مدد سے جوڑا ہوا تو ہے، ہم ڈائجسٹوں کو تو خیر ادب میں شمار ہی نہیں کرتے خیر یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے اور بہت پرانا کہ کہ سری ادب یا پاپولر فکشن کا شمار کسی ادبی صنف میں کیا جاسکتا ہے یا نہیں لیکن ڈائجسٹ اور جاسوسی ناولز نے ایک کم عمر سے لے کے بڑی عمر تک کے فرد کو کتاب سے جوڑے رکھا اور مطالعے کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ یہ بھی بہت بڑی بات اور بہت بڑا کام ہے۔
تو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ان بحرانوں اور نزاعی کیفیات نے سب سے زیادہ جس طبقے کو متاثر کیا ہے وہ بے چارہ عام کارکن ہے جس کا گزارہ ادھر ادھر کے معاملات پر نہیں بلکہ سوکھی تنخواہ پر ہوتا ہے۔ بہت سے نکال دیئے گئے۔باقیوں بھی ایک غیر یقینی سی کیفیت میں ہیں۔ تنخواہیں سوائے ایک دو اداروں کے کہیں بھی بروقت نہیں دی جارہی ہیں۔ حالانکہ مجھے الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے مالیاتی نظام سے واقفیت رکھنے والے احباب یہ کہتے ملے کہ جناب نقصان تو کہیں سے نہیں ہے مالی اعتبار سے بس۔۔۔ اور اس بس ۔۔ کے بعد کیا ہے یہ درج ذیل واقعہ سمجھائے گا آپ کو۔ مرحوم علی سفیان آفاقی صاحب سے کون واقف نہیں ۔آپ ایک سیاح صفت انسان تھے۔اکثر بیرون ملک جاتے تھے۔ لندن میں ایک ہوٹل میں اکثر قیام رہتا تھا تو آپ لکھتے ہیں کہ وہاں کمروں کی بکنگ کے لئے لائنیں لگی ہوتی تھیں۔ بار بار کے قیام کی وجہ سے مالک سے بھی دوستی سی ہو گئی تھی۔ ایک دفعہ آفاقی صاحب وہاں ٹہرے اور مالک سے ملاقات ہوئی تو اسے پریشان پایا۔ پوچھا تو بولا کہ سر ہوٹل نقصان میں جانے لگا ہے۔آفاقی صاحب نے حیران ہوکر کہا کہ باہر بکنگ کی لائنیں لگی ہیں آپ کہہ رہے ہیں کہ نقصان میں جانے لگا ہے۔ اس نے رازداری سے کہا کہ نہیں جناب یہ بات نہیں پہلے بکنگ کے لئے باہر لگنے والی لائینوں میں سو سوا سو لوگ ہوا کرتے تھے اب صرف ساٹھ ستر ہوتے ہیں۔ نقصان تو ہورہا ہے نا۔ تو بس موجودہ میڈیا مالکان کا ہونے والا نام نہاد نقصان بھی بس ایسا ہی ہے کہ متوقع نفع میں کمی آجانے کا امکان بھی ان کے لئے نقصان جیساہوتا ہے جسکا رونا رو رو کر وہ ہر قسم کے استحصال کو روا رکھنے میں خود کوحق بجانب سمجھتے ہیں۔(خرم علی عمران)