تحریر: راؤ جمیل۔۔
شہر قائد سمیت ملک بھر کے اخبارات اور ٹی وی چینلز میں کام کرنے والے صحافیوں کی بڑی تعداد کے کو رونا وائرس سے متاثر ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں اور متاثرہ صحافیوں کی تعداد میں مسلسل اور تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے گذشتہ 24 گھنٹوں میں کم و بیش 100 صحافیوں کے کو رونا سے متاثر ہونے کی اطلاعات ہیں صحافیوں کی بڑی تعداد میں اس خطرناک موزی مرض میں مبتلا ہونے کے ذمہ دار میڈیا مالکان کے ساتھ ساتھ صحافتی تنظیمیں اور وہ صحافی مافیا ہیں جو ہمیشہ عام صحافیوں کا خون چوستے رہے ہیں جو مظلوم صحافیوں کی جبری برطرفیوں پر خاموش تماشائی بنے رہے میڈیا مالکان سے درپردہ خوشگوار مراسم قائم رکھے کیونکہ ان بااثر صحافی مافیا کے قیمتی گھروں میں اعلیٰ کوالٹی کی اشیاء خوردونوش انکے بیوی بچوں کے پاس قیمتی جوتے لباس اور ضروریات زندگی کی ہر آسائش موجود ہے یہ اپنے دفاتر میں بھی زیاده تر سیاسی معاملات میں وقت گزارنے کے بعد شام کو پریس کلب کے لان میں درجنوں خوشامدیوں کے جھرمٹ میں قصے کہانیاں انجوائے کرتے ہیں رات گئے نیم مدہوشی کے عالم میں قیمتی گاڑیوں میں گھروں کو روانہ ہو جاتے ہیں انکی جیبوں میں بڑے نوٹ اور پیڑول کی ٹینکی بھی فل ہوتی ہے انہیں کیا غرض صحافی کے دکھ یا درد سے یہ تو عام صحافیوں کو غلام سمجھتے ہیں جب چاہیں ووٹ چھین لیں اگر کسی بڑے صحافی کی شان میں کوئی گستاخی کردے تو ان عام صحافیوں سے احتجاج اور نعرے لگوا کر انہیں استعمال کیا جاتا ہے عام صحافی کی یہی عزت اور اوقات ہے اس مافیا کی نظروں میں سینکڑوں صحافیوں کو برطرف کردیا جائے انہیں بھوک سے مار دیا جائے یا کو رونا جیسی جان لیوا مرض میں مبتلا ہوکر اپنے دکھوں میں گھرے اہل خانہ کے ہمراہ بے یارو مددگار بھٹکتے رہیں انہیں کیا غرض میں میڈیا مالکان سے زیاده عام صحافیوں کے مسائل کا ذمہ دار اسی بااثر مافیا اور صحافتی ٹولے کو سمجھتا ہوں کیونکہ اگر ہمارے صحافی لیڈران مخلص ہوئے تو کسی میڈیا مالک کی جرآت نہیں کہ کسی ورکر کے ساتھ ناانصافی کریں ایک جانب بیشتر ادارے کئی کئی ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کر رہے تو دوسری جانب کرونا وبا کے دوران آدھی تنخواه پر پوری ڈیوٹی لی جا رہی ہے صحافیوں کو دفاتر میں اور آؤٹ ڈور اسائمنٹ کے دوران حفاظتی اشیاء بھی مہیا نہیں کی جاتیں جسکی وجہ سے صحافیوں کی بڑی تعداد اس موذی مرض کا شکار ہو رہی ہے مذکوره صحافی ایک جانب گھریلو اخراجات پورے نہ ہونے پر پریشان ہیں تو دوسری جانب اس وبا کے خوف میں مبتلا ہمارے خوش پوش لیڈران مافیا ہمارے جیتے جی کچھ نہیں کر رہے تو ہمارے مرنے کے بعد ہمارے اہل خانہ کیلئے کیا کرینگے ؟ یا اس سے قبل صحافیوں کی بیواؤں اور یتیم بچوں کیلئے انہوں نے کیا کیا ہے؟؟ ابھی بھی وقت ہے عام صحافی خود مل کر اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کریں اور اس مافیا کی غلامی سے آزادی حاصل کریں . میں چیف جسٹس پاکستان ، وزیراعظم اور آرمی چیف سے اپیل کرتا ہوں کہ صحافیوں کی جبری برطرفیوں ، تنخواہوں کی کٹوتی اور انھیں مو ذی وبا کو رونا میں دھکیلنے والے میڈیا مالکان کا محاسبہ کیا جائے عام صحافیوں اور انکے اہل خانہ کو باعزت زندگی گزارنے کا حق دیا جائے۔(راؤ جمیل)۔۔