بلاگ: ملک آفتاب حسین
تھکاوٹ سے چورگھرپہنچنے پربچے اسکے منتظرتھے شکايتی نظروں سے ديکھنے پرشايد وہ کچھ کچھ بھانپ چکا تھا ،سکوت ٹوٹا، بڑا بيٹا مخاطب ہواپ، اپا اسکول کل کھل رہے ہيں پوري چھٹياں گذرگئيں کہيں گھومنے نہيں گئے، پپاپتہ نہيں کيا کيا پروگرام بنائے تھے، ميرے سارے کلاس فيلوزکوئی مری توکوئی کاغان، ايک ہم انتظار ہی کرتے رہے، پہلے آپکے ادارے والے عيداوررمضان ڈيوٹيوں کاکہتے رہے اورپھراليکشن ،،وہ بولتے جارہے تھے کہ صحافی نے پيارسے کہا ۔۔بيٹا،اگلی چھٹيوں پرجائيں گے وعدہ ،بچوں نے معصوميت سے کہا، ارے پپا اگلی بارپھراليکشن ہوگئے توآپ کی چھٹياں کينسل۔۔؟؟ ارے بيٹا جائيں گے وعدہ ۔۔يہ کہہ کروہ سونے کےليئے ليٹاتوبڑے بيٹے نےکہا ، پاپا ايک بات بتائيں، آپکے کتنے صحافی دوست جن کو ہم بھی جانتے ہیں فيس بک پرتصاويرشيئرکررہے تھے، چھٹيوں ميں کوئی مری گيا ، کوئي دبئی، توانکوکيسے چھٹياں مل گئيں ۔۔؟؟ ارے بيٹاوہ رپورٹربھی ہيں اورانکے سپورٹربھی ہيں اداروں ميں بھی اورباہربھی صحافی کے جواب ميں پھربچے پکارے۔۔ پاپا يہ رپورٹراورسپورٹرکيا ہوتا ہے ؟؟۔۔ اچھا چھوڑو بيٹا، ان کاموں کوارے منے کی ماں ميری بلڈپريشر کی گولی لے آؤ،، کچن سے آوازآئی۔۔ آپکوبتايا توتھا ميری شوگراورآپکی بلڈپريشرکي گولياں ختم ہوگئيں آپ روزانہ کہتے ہوآج لے آؤں گا،، وہ جھجنجلا کربولا۔۔ ارے پتہ توہے ،تنخواہ تين ماہ سے ليٹ ہے ۔۔چلواس بارتنخواہ ملی تواکھٹے گوليوں کے پيکٹ لے لوں گا ۔۔يہ کہتے ہوئے اس نے کچھ لمحے سوچا اپنے بچوں پرنظرڈالی اورسرہانے پرسررکھ کرسوگيا کيونکہ اسے دوسرے دن بھی جلدی دفتر جانا تھا۔۔(ملک آفتاب حسين عام صحافی)۔۔