media workers ke huqooq

میڈیا ورکرز کے حقوق۔۔

تحریر : عرفان شیخ۔۔

پاکستان میں عام آدمی کے ساتھ زیادتی ہو تو وہ قانون کی جانب دیکھتا ہے جب قانون سے انصاف نہ ملے تو وہ میڈیا کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھتا ہے اسے امید ہوتی ہے کہ میڈیا اس کے خلاف ہونے والی نا انصافی پر ضرور آواز اٹھائے گا مگرجب خود میڈیا ورکرز کو اپنے حقوق کے لئے چیختے چلاتے احتجاج کرتے دیکھتے ہیں تو لوگ دانتوں تلے انگلیاں دبا لیتے ہیں کہ جو اپنے حقوق نہیں لے سکتے وہ ہمیں کیا انصاف دلائیں گے، شاید عوام نہیں جانتے کہ اس وقت میڈیا کا مطلب میڈیا ہاوسز مالکان ہیں جن میں سے زیادہ تر کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ عام عوام یا ان کے ادارے میں کام کرنے والے ورکرز کے کیا مسائل ہیں وہ کیا چاھتے ہیں انکی ضروریات کیا ہیں مالکان صرف اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں،کوئی بھی ایسا معاملہ یا خبر جو کسی میڈیا مالکان کے  کاروباری نقصان کا باعث بننے کا خدشہ رکھتی ہو وہ کبھی بھی کسی اخبار یا کسی سکرین کی زینت نہیں بنتی،جہان بھر کی نا انصافیوں پر آواز اٹھانے والوں کے حق میں آواز اٹھانے والے انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں،ورکرز کے حقوق اس قدر ذبوں حالی کا شکار ہیں کہ کوئی بھی اپنی کسی جائز شکایت کا اظہار کرتے ہوئے دس بار سوچتا ہے اور کسی ادارے میں کوئی ورکراپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے کی ہمت کر بھی لے تو اسے جاب سے بے دخلی کی صورت میں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے  اسی لیے بے چارہ ورکر زیادتی سہتے ہوئے بھی مجبوراََ خاموشی اختیار کرنے میں ہی عافیت سمجھتا ہے،فیلڈ میں جا کر خبر کے حصول سے لیکر عوام تک معلومات پہنچانے میں کردار ادا کرنے والے میڈیا انڈسٹری میں بیٹھے ہزاروں ورکرز اپنے حقوق حاصل کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں چند میڈیا ہاوسز کے علاوہ تمام چینلز میں نہ ہی ورکرز کو وقت پر تنخواہ دی جاتی ہے نہ ہی دوسری مراعات، مہنگائی کا تیز رفتار گھوڑا روزانہ کی بنیاد پر اپنی رفتار میں اضافہ کرتا ہے مگر میڈیا ورکرز کی تنخواہیں کئی کئی سال سے وہیں پڑی سسکتی رہتی ہیں جس میں وہ بے چارہ یہاں وہاں سے قرض پکڑ کر گزارا کرنے کی کوشش کرتا ہے،بیشتر اداروں میں ورکرز کو میڈیکل کی بنیادی سہولت تک نہیں دی جاتی،حکومت کی جانب سے مقرر کردہ کم از کم اجرت کے قانون پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا،رواں مالی سال کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے مزدور کی کم از کم اجرت 37000ہزار مقرر کی وہیں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے میڈیا ورکرز کے لئے 37500روپے کم از کم اجرت کو یقینی بنانے کے لئے متعلقہ حکام کو احکامات دیئے لیکن شاذ و نادر ہی میڈیا ہاوسز اس پر عملدرآمد کر رہے ہیں زیادہ ترچینلز میں مزدور کی مقرر کردہ کم از کم اجرت تو دور 20سے 25ہزار تنخواہ دی جارہی ہے اور وہ بھی کئی کئی ماہ بعد،صحافتی تنظیمیں ان مسائل پر ہومیو پیتھی قسم کی آواز اٹھاتی ضرور ہیں مگر انکی آواز نکار خانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ نہیں ہوتی،سوال یہ اٹھتا ہے کہ میڈیا ورکر اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافی کے لئے کس کا دروازہ کھٹکھٹائے،صحافتی تنظیموں کے ساتھ متعلقہ حکومتی اداروں کو بھی اس بات کا جائزہ لینا چاھئے کہ کس کس ادارے میں بنیادی حقوق کا خیال نہیں رکھا جا رہا ہے اور کون سا ادارہ ورکرز کو انکے جائز حقوق سے محروم رکھے ہوئے ہے تاکہ عام غریب ورکر کی داد رسی ہو سکے۔(عرفان شیخ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں