تحریر: گوہر ملک
الیکٹرانک میڈیا بحران سے آج کون واقف نہیں ،نوکریوںسے برطرفیاں اور تنخواہوں میں کٹ لگنے سے تمام میڈیا ورکرز سخت پریشانی کا شکار ہیں۔چند ایک میڈیا ہاوسسز کے علاوہ باقی تمام میڈیا ہاوسسز اپنے ورکرز کو بروقت تنخواہیں دینے سے بھی قاصر ہیں۔کچھ دوست یہ ملبہ موجودہ گورنمنٹ پر ڈال رہے ہیں اور کچھ میڈیا ہاوسسز مالکان پر لیکن یہ بحران ختم کب اور کیسے ختم ہوگا اس پر کوئی لائحہ عمل ابھی تک نا تو بنا ہے اور نا ہی مستقبل میں بنتا نظر آرہا ہے ۔سیاسی پارٹیز کی طرح ہر سال میڈیا ایسوسی ایشنز الیکشن کے دنوں میں جاگ جاتی ہیں اورالیکشن جیت جانے کے بعد پورا سال سوئی رہتی ہیں میڈیا ورکرز کے لئے آواز اٹھانے والا کوئی نہیں ہوتا کیونکہ تمام ایسوسی ایشنز کے عہداران کسی نا کسی میڈیا ہاﺅس کے کسی بڑے عہدے پر فائز ہوتے ہیںایسے میں میڈیا ورکرز کا مستقبل کیاہے۔؟
میڈیا ہاوسسز میں کام کرنے والے ورکرز کو بنیادی میڈیکل اور پی فنڈ کی سہولیات بھی میسر نہیں چند ایک چینلز کے علاوہ باقی تمام چینلز میں نا تو میڈیکل کی سہولت ہے اور نا ہی پی فنڈدیا جاتا ہے ایسی صورت حال میں اگر کسی کو نوکری سے برطرف کردیا جائے تو اس کے پاس تو کچن چلانے کے لئے بھی کچھ نہیں رہتا ،گھر کا کرایہ،یوٹلٹی بلز،بچوں کی سکول فیسزاور باقی اخراجات تو بہت دور کی بات ہے۔
میڈیا ورکرز کا مسقبل محفوظ ہوناچاہیے ہے تاکہ جو میڈیا ورکرز دن رات اپنے فرائض سراانجام دے رہے ہیں ان کو یہ فکر نہ ہو کہ اس مہینے ان کو تخواہ ملے گی بھی یا نہیں ،کوئی میڈیا ورکر اگر اپنی پوری زندگی کسی ادارے کے لئے وقف کردیتا ہے تو ادارہ چھوڑتے وقت اس کو کم سے کم یہ اطمنان ضرور ہو کہ اسے ایک معقول معاوضہ ملے گا جس سے وہ اپنی باقی کی زندگی کیسی سرکاری ملازم کی طرح سکون سے گزار سکے گا۔