تحریر: جمیل فاروقی، اینکرپرسن۔۔
خان صاحب کی بائیس سالہ سیاسی جدوجہد کے پہلے دس سال اٹھا کے دیکھ لیں اور اس کا تقابلی جائزہ اگلے بارہ سال کے ساتھ کریں ، آپ کوفرق صاف دکھائی دینے لگے گا۔ ’نیا پاکستان‘ بنانے کے پیچھے خان صاحب کی انتھک کاوش ، سیاسی جدوجہد اورشہر شہر جلسوں کی لگاتار مشق تو کارفرما ہے لیکن ایک محرک ۔۔ ’ میڈیا ‘ بھی ہے جسے’ نئے پاکستان‘ کے ’پرانے‘ کرتا دھرتا قطعی طور پر نظرانداز کر بیٹھے ہیں۔ جناب وزیر اعظم صاحب ! ہم چیلنج کر سکتے ہیں ، آپ چند دن کے لئے 1992 سے 2002 کے پاکستان میں واپس چلے جائیں ، تھوڑی دیر کے لئے ٹھنڈی سانس لیں اور سوچیں کہ شہر شہر انقلابی دوروں اور جلسوں کی ’ بال ٹو بال‘ کوریج نہ ہو ۔ تبدیلی کا منترا ۔۔بار بار لوگوں نے نہ سنا ہو ،آپ کے اسٹیج پر’ پش اپس ‘کو براہ راست کروڑوں لوگوں کو نہ دکھایا گیاہو، آپ کی تبدیلی مہم کے لئے اربوں روپے کے اشتہارات نہ چلے ہوں ، جلسوں کے دوران بڑی اسکرین پرآپ کی مہماتی دستاویزی فلمیں اور گانے گھروں میں بیٹھے کروڑوں لوگوں کو نہ دکھائے جائیں ۔126دن کے دھرنے کی گونج شہراقتدار تک سے باہر نہ نکلی ہو اور آپ کے حکومت پر لگاتار بونسرز کو کسی اخبار کے آخری صفحے کی دو کالمی خبر بنا کر قصہ نمٹا دیا گیا ہو ۔ تو آپ کے نئے پاکستان کی خواہش یا تبدیلی کے ساتھ کیا بیتے گیااس کا اندازہ کوئی بھی لگا سکتا ہے۔ آپ اور آپ کی کابینہ مانے یا نہ مانے ۔۔ لیکن نیا پاکستان بنانے میں گرتے سنبھلتے اپنے پاوں پر کھڑا ہوتے میڈیا کا بھی کردار ہے جسے آپ کے کرائے کے مستریوں نے تختہ مشق سمجھتے ہوئے گزشتہ ساٹھ دنوں میں بے حسی کے ریکارڈز توڑ ڈالے ہیں ۔ آپ کی نومنتخب کابینہ کا ایجنڈا بالخصوص میڈیا کے معاملے میں انتہائی تشویشناک ہے۔ گزشتہ ساٹھ دن میں کم وبیش دوہزار میڈیا ورکرز اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔ہم تجزیہ کاروں کے لئے یہ اچھنبے سے کم نہیں کہ آپ میڈیا مالکان سے توخوش گپیاں لگاتے ہیں ۔ملاقات کے بعد کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوجاتی ہیں لیکن چند ہزار روپے ماہانہ تنخواہ کے باوجود جبری برطرف کئے جانے والے ورکرزسے آپ کی کابینہ اور آپ کی ہمدردی نہ ہونے کے برابر ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ پکڑنا ہے تو بڑے بڑے سرمایہ کاروں کو پکڑیں جو دھڑا دھڑ لائسنس لے کر راتوں رات نیوزچینلز کھڑا کر دیتے ہیں ۔یہ چینلز ان کے کالے دھن کے لئے حفاظتی شیلڈ کا کام کرتے ہیں ۔ ان کے ساتھ تو آپ کی خوش گپیاں دیکھنے لائق ہوتی ہیں لیکن گھن چکر میں کوئی جا کے پھنستا ہے تو غریب ٹیکنیکل اسٹاف ، کیمرامین ، نان لینئیر ایڈیٹر ، کاپی رائیٹر ، رپورٹر اور متوسط درجے کا نیوز اینکر ۔ آپ اسی بات سے اندازہ لگا لیجئے ، جن موصوف کو آپ نے اطلاعات و نشریات کی وفاقی وزارت سے نواز ہے ، وہ گزشتہ پانچ سال تک ماہانہ بھاری رقم پر ٹی وی شوز کی میزبانی کرتے رہے ہیں ۔ ان کے معاوضے میں کٹوتی کا تو کسی کو خیال نہیں آیا۔اب آپ کو یہ مشورے کون دے رہاہے۔کہ صحافیوں کی تنخواہیں کم ہونی چاہئیں۔ جس وقت تبدیلی کا خواب محض خواب تھا ، اس وقت تو آپ اربوں روپے کے اشتہارات دے کر بھی تبدیلی لانے پر بضد تھے ، اب ایسا کیا ہوگیا کہ میڈیا کو سرکاری اشتہارات دینا آپ کو حرام لگ رہا ہے۔آپ بدعنوان عناصر کو پکڑیں ، سادگی اختیار کریں ، نیوز چینلز کو کالے دھن کی رکھوالی کے لئے استعمال کرنے والوں کو بھی پکڑیں ، بڑے بڑے مگر مچھوں کے گرد گھیرا بھی تنگ کریں لیکن اس میں عام ورکر کا کیا قصور ہے حضور والا۔ ایک طرف آپ روزگار کی بات کرتے ہیں اور دوسری جانب میڈیا ملازمین کی نوکریوں سے جبری برطرفیوں پر خاموش ہیں ۔ یہ دوہرا میعا ر ناقابل قبول ہے۔اس معاملے پر چیف جسٹس آف پاکستان سے گزارش ہے کہ از خود نوٹس لیں اور میڈیا ملازمین خصوصا نچلے طبقے کے ٹیکنیکل ورکرز کے ساتھ ہونے والے استحصال کو رکوائیں۔ (جمیل فاروقی، اینکرپرسن)۔۔