تحریر: اکرم خان۔۔
پاکستان میں صحافت اور صحافیوں پر بہت کڑا وقت ہے، ایک طرف حکومت کی طرف سے سخت سنسر شپ کاسامنا ہے دوسری طرف حکومت پر تنقید کرنے والوں کو بےروزگاری بھگتنا پڑ رہی ہے، اتنا ہی نہیں متعدد اداروں میں تنخواہوں میں کمی کی گئی ہے اور تنخواہیں مہینوں تاخیر سے ادا کی جارہی ہے، فارغ کئے جانے والوں کے بقایاجات ادا نہیں کئے جارہے، یہ صورت حال کم و بیش تمام میڈیا ہاؤسز کی ہے، شروع کرتے ہیں جنگ گروپ سے جہاں تنخواہوں کی ادائی میں دو سے تین ماہ کی تاخیر گزشتہ ایک برس سے ہے، سالانہ انکریمنٹ بھی گزشتہ آٹھ برس سے رکا ہوا ہے ، میڈیکل اور دیگر مراعات اور حقوق لینے میں بھی مشکلات ہیں، ڈان اخبار میں بیس ماہ قبل تنخواہوں میں چالیس فیصد کٹوتی کی گئی تھی جو ابھی بھی برقرار ہے، نیوز ون چینل میں بھی ملازمین کو آٹھ مہینوں سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں، بول چینل بھی ملازمین کی برطرفیوں، بقایا جات اور تنخواہوں کی عدم ادائی میں نمبر ون ہے، اب تک چینل میں بھی تنخواہیں دو ماہ کی تاخیر سے اداکی جارہی ہیں، نواۓ وقت میں تنخواہوں کا نظام ہی ختم ہے ایک سال تک کی تاخیر ہے ، برطرف ملازمین بقایاجات کے لئے پریشان ہیں، امت اخبار میں بھی گزشتہ کئی مہینوں سے تنخواہیں ادا نہیں کی جارہی ہیں۔ میڈیا ورکرز سخت ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔صحافیوں کے نام پر فنڈز وصول کرنے والی تنظیموں کے پاس بھی ان حالات کا کوئی ادراک اور مداوا نہیں ہے، وفاقی حکومت میڈیا ہاؤسز کی دشمن بنی ہوئی ہے، ایسے میں ملازمین اور اداروں کی نگاہیں سندھ حکومت کی طرف ہیں وہ کوئی ایسی پالیسی ترتیب دے جس سے ادارے بحران سے نکل سکیں اور ملازمین کی تنخواہوں کی عدم ادائی کا مسلۂ حل ہو، صوبائی خود مختاری ہے، نیشنل پریس ٹرسٹ کی طرز پر سندھ پریس ٹرسٹ کے قیام کا سوچا جا سکتا ہے، جس کے تحت اردو سندھ اور انگریزی زبانوں میں چینلز، اخبارات، ریڈیو اور میگزینز کی اشاعت کااغاز کیا جائے، سندھ حکومت گوز چینل کا آغاز کر رہی ہے اسے توسیع دے کر سندھ نیشنل پریس ٹرسٹ کے تصور کو حقیقی شکل دی جاسکتی ہے، اس سے روزگار کے نئے ذرائع بھی پیدا ہوں گے، انڈسٹری کے بڑے نام اور ادارے بھی اس حوالے سے میڈیا اداروں کا سہارا بن سکتے ہیں اور کوئی حکمت عملی ترتیب دی جاسکتی ہے۔۔(اکرم خان)