میڈیا مالکان کا اتحاد مثالی اور قابلِ عمل ہے جنہوں نے ہزاروں میڈیا کارکنوں کامعاشی قتل کیا اور کسی کو تکلیف نہیں پہنچی ،بس معمولی سا احتجاج ہوتا ہے جس میں کچھ لوگ بھاشن دیتے ہیں ، کچھ دبے الفاظ نقید کرتے ہیں ، کچھ میڈیا مالکان کو رپورٹ کرتے ہیں اور کچھ کوسنے دیتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بس دل کی بھڑاس نکالتے ہیں اور خاموش ہو کر بیٹھ جاتے ہیں ، اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ جن کیلئے احتجاج کیا جاتا ہے وہ خود بھی احتجاج میں شامل نہیں ہوتے ۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو احتجاج پر تبصرہ کرتے ہیں کہ بھئی ایسے احتجاج سے کوئی فائدہ نہیں ہونے والا بلکہ احتجاج میں شامل ہونے والے ٹارگٹ لسٹ میں آجاتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔۔ یعنی وہ احتجاج کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں لیکن جب انھی کو نکال دیا جاتا ہے تو پہلا گلہ یہ کرتے ہیں کہ میڈیا کارکنوں تنظیمیں سورہی ہیں ؟ حالانکہ انہیں بخوبی علم ہوتا ہے کہ کارکنوں کی تنظیمیں نہیں سو رہیں بلکہ کارکن خود سو رہے ہیں ۔ اگر کارکن سو نہ رہے ہوتے تو یوں تقسیم در تقسیم نہ ہوتے ۔۔ یہ تقسیم کس نے ڈالی ؟ کون سا لیڈر کتنا استعمال ہوا ؟ کونسا مالک کارکنوں کو تقسیم کرنے میں کتنا کامیاب ہوا ؟ اس سے زیادہ توجہ طلب بات یہ ہے کہ ہم نے تقسیم کے عمل پر مزاحمت کیوں نہ کی ؟ ہم خاموش کیوں رہے ؟ جو لوگ تقسیم کا باعث بنے انہیں سبق کیوں نہ سکھایا ۔۔؟ کیا ہم اندھے ہیں ؟ کیا وہ لوگ ہمارے ارد گرد نہیں ہیں جو ہمیں کمزور اور مالکان کو مضبوط کرنے کا موجب ہیں ؟
آج بھی جب میڈیا کارکن احتجاج کرتے ہیں تو ان میں کچھ غیر ضروری قسم کے لوگ پیش پیش کیوں ہوتے ہیں یا ہونے کی کوشش کرتے ہیں ؟ میڈیا کارکنوں کے احتجاج میں دوسری لیبر یونینوں کے لوگ شریک کیوں نہیں ہوتے ؟ سیاسی کارکن کیوں ساتھ نہیں ہوتے ؟ سول سوسائٹی ساتھ کیوں نہیں دیتی ؟ صرف اس لئے کہ ہم لوگ ایک آدھ احتجاج کرکے اپنا فرض ادا کردیتے ہیں دوسرے الفاظ میں میت کو کندھا دیکر مہر لگاتے ہیں کہ واقعی اس کارکن کو قتل کردیا گیا ہے ۔۔۔ میری خواہش ہے کہ میرے الفاظ کو کوئی چیلنج کرے اور پھر میں بتاﺅں کہ نوائے وقت ، نیشن اور وقت نیوز کے باہر احتجاج کرنے پر کچھ لوگوں کا ردِ عمل کیا تھا جبکہ وہ کارکنوں کے لیڈر کہلانے کے دعویدار بھی ہیں ، دنیا نیوز کے باہر احتجاج کرنے کا نتیجہ کیا نکلا ؟ ایکسپریس کے باہر احتجاج کیا ہی نہیں گیا اور اب جنگ گروپ کے خلاف احتجاج کرنے کا کیا نتیجہ نکلے گا ؟ ایک سوال اور ہے کہ ہمارے احتجاج میں بعض اوقات حکومت کے خلاف بھی نعرے لگائے جاتے ہیں ؟ کیوں ؟ کیا حکومت ان برطرفیوں کی ذمہ دار ہے ؟ اس کا جواب نفی میں ہے بلکہ میڈیا مالکان کی یہ بھر پور کوشش ہے کہ میڈیا کارکن حکومت کیخلاف نعرہ زن ہوں ۔ کیا نون لیگ ، پیپلز پارٹی یا کسی بھی دوسری جماعت کو نظر نہیں آتا کہ کارکن سڑکوں پر ہیں ؟ جی ہاں نظر آتا ہے لیکن وہ جماعتیں جانتی ہیں کہ کارکن ان کے کسی کام کے نہیں ، لیڈر وں کو وہ بخوبی جانتے ہیں لیکن یہ بھی واضح رہے کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں، یہ بات سیاسی جماعتوں کے اہم ذمہ داران جانتے ہیں ، اگر کسی نے یہ جاننا ہو تو شیخ رشید ، قمر زمان کائرہ ، پرویز رشید ، مریم اورنگزیب ، فردوس اعوان یا کسی بھی سابق انفارمیشن منسٹر سے پوچھ لیں ، میں نے تو ایک بار انفارمیشن منسٹر قمر زمان قائرہ سے پوچھا تو اس نے جواب دیا تھا کہ اپنے صدر( پی ایف یوجے کے صدر) سے پوچھیں جنہوں نے مالکان کی مدد کی ہے ۔
آج بھی میں کارکنوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ وقت ضائع کرنے کیلئے احتجاج نہ کریں بلکہ احتجاج کیلئے نکلیں اور نتیجہ خیز احتجاج کریں ، اس مقصد کیلئے موسم ، ساتھیوں کی تعداد کی نہ دیکھیں بس یہ دیکھیں کہ ان کی قیادت کرنے والا کوئی ان ”ٹھگی ‘ تو نہیں لگا رہا ؟ بس تھوڑا سا جاگتے رہیں ۔ ایسے لوگوں کے بھاشن سننے کی کوئی ضرورت نہیں جو آپ کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے ، جن کی زبان اور الفاظ ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دیتے ۔۔ورنہ میں اپنے کسی اور ساتھی کے قتل پر آنسو بہانے کے بجائے قاتل کو شیر بہادر ہی کہوں گا حالانکہ اصل شیر بہادر وہ ہیں جو ننگے بدن خالی پیٹ بھی طاقتوروں سے لڑتے ہیں اور انتہائی محترم ہیں۔(محمدنوازطاہر)