تحریر: محمد حنیف۔۔
سر باجوہ شاید یہ کہنا چاہتے تھے کہ اوئے صحافیو، ’بندے کے پتر بن جاؤ،‘ لیکن چونکہ قومی زبان میں نسبتاً شائستہ محاورہ موجود ہے تو انھوں نے صرف یہ فرمایا کہ اگر میڈیا والے انسان بن جائیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔کون ہے جس نے زندگی میں کبھی نہ کبھی یہ نہیں سنا کہ انسان بن جاؤ۔ کبھی دھمکی کی صورت میں، کبھی التجا کی شکل میں، کبھی ماں باپ کہتے ہیں کہ انسان بن جاؤ، کبھی کلاس میں استاد کان پکڑوا کر انسان بناتا ہے، کبھی کبھی گلی کے نکڑ پر کھڑا بدمعاش بھی آواز لگاتا ہے کہ انسان بن جاؤ ورنہ۔
ہمارے صحافی بھائی آج کل عمران خان کو گھر بھیجنے یا سیاسی شہید بنانے میں اتنے مصروف ہیں کہ کسی نے سر باجوہ سے پلٹ کر یہ نہیں پوچھا کہ کیا ہم آپ کو مریخ کی مخلوق لگتے ہیں؟ کیا ہم امردو کے درخت پر بیٹھے طوطے ہیں جو آپ ہمیں انسان بنانا چاہتے ہیں؟کاش وہ صحافیوں کی صفوں میں موجود کچھ انسانوں کی نشاندہی کر دیتے تو باقی صحافی بھی اپنے آپ کو اسی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے۔
حالانکہ راقم جز وقتی سا قلم گھیسٹیا صحافی ہے لیکن انسان بننے کو دل مچلتا ہے۔ لیکن یہ سمجھ نہیں آتی کہ کیسا انسان بنوں۔دل چاہتا ہے کہ بطور صحافی میرے پاس کامران خان کے ذرائع ہوں، اوریا مقبول جان کا ایمان ہو، حسن نثار جیسا دبنگ لہجہ ہو، ہارون رشید صاحب جیسے شعر یاد ہوں، نصرت جاوید جیسا یادوں کا خزانہ ہو، پھر سوچتا ہوں کہ اگر میں ایسا انسان بن گیا تو شاید گھر والے بھی پہچاننے سے انکار کر دیں۔
پاکستانی صحافیوں کو انسان بنانے کا مشن کافی پرانا ہے۔ اس کے لیے عام طور پر گولیوں یا گالیوں سے کام لیا جاتا ہے۔ لیکن باجوہ صاحب اگر اب بھی مصر ہیں کہ میڈیا والے انسان بن جائیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا تو اس کا مطلب ہے کہ صحافیوں کو انسان بنانے کے عمل میں کچھ غلطیاں ضرور ہوئی ہیں۔ گولی سے صحافی کو انسان بنانے کی کوشش میں کبھی کبھی جان چلی جاتی ہے اور مردہ صحافی بھی قوم کے لیے کافی مسئلے پیدا کر سکتا ہے۔ صحافیوں کی عالمی تنظیمیں شور مچاتی ہیں۔ پریس کلبوں کے باہر مظاہرے شروع ہو جاتے ہیں۔ ملک اور اس کے ادارے بہت بدنام ہوتے ہیں۔ سلیم شہزاد کو صحافی سے انسان بنے کتنے سال ہو گئے ہیں، ملک اور ملک سے باہر اس کا نام آج بھی لیا جاتا ہے۔بعض دفعہ کچھ ڈھیٹ صحافی گولیاں کھا کر بھی بچ جاتے ہیں تو وہ اور خطرناک ہو جاتے ہیں۔ اپنے حملہ آوروں کے نام پتے پوچھتے ہیں اور بات گھوم پھر کر اداروں اور ملک کی بدنامی پر آ جاتی ہے۔گالیاں دے کر صحافی کو انسان بنانے کا نسخہ کافی پرانا ہے لیکن سستے سمارٹ فونز اور سوشل میڈیا کی وجہ سے گالیوں کی مقدار، رفتار اور ان کی جدت میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ پہلے زیادہ سے زیادہ لیٹر ٹو ایڈیٹر لکھ دیتے تھے۔ اب ٹاپ ٹرینڈز بن کر ملک بھر میں بدنام کرتے ہیں۔
اگر مرد صحافی زیادہ تر بکاؤ ہیں، لفافے ہیں، غدار ہیں، مودی کے یار ہیں، نواز شریف کے غم خوار ہیں، چوروں اور لٹیروں کی وکالت کرتے ہیں تو خواتین صحافیوں کے لیے جو زبان ایجاد کی گئی ہے وہ زندگی میں نہ کبھی پڑھی نہ کبھی سنی۔عاصمہ شیرازی اور ثنا بچہ کے لیے جو زبان استعمال کی جاتی ہے وہ اگر لکھنے والوں کی مائیں بہنیں پڑھ لیں تو شاید یہ کبھی ان کی شکل بھی نہ دیکھیں۔لیکن گالی بریگیڈ سے صحافیوں کو انسان بنانے میں بھی ایک مسئلہ ہے کہ جو آج آپ کے مخالف کو گالیاں دیتے ہیں، کل وہ یہی گالیاں گھما پھرا کر آپ کو بھی دیں گے۔
ہمارے گاؤں میں ایک اکھڑ مزاج شخص تھا۔ جب اس کے بیٹے نے اپنی توتلی زبان میں پہلی گالی دی تو اس شخص نے خوش ہو کر اسے ایک روپیہ دیا۔ پھر بعد میں بوڑھا ہو کر بدحال پھرتا تھا۔ لوگ پوچھتے تھے کہ کیا ہوا تو کہتا تھا میرا بیٹا مجھے گالیاں بہت دیتا ہے۔میڈیا والوں کو انسان بنانے کا سب سے موثر طریقہ یہی ہے کہ ان کی نوکری چھین لو۔ نہ وہ میڈیا والے رہیں گے نہ انھیں انسان بنانے کی ضرورت پڑے گی۔ہمارے ملک میں ایک عظیم صحافی ہوتے تھے سرل المائیڈا۔ انھوں نے ایک سٹوری بریک کی جس کا لب لباب یہ تھا کہ سیاست دان اداروں سے کہہ رہے ہیں کہ تھوڑا انسان بن جائیں ورنہ دنیا ہمیں تنہا کر دے گی۔اس کہانی سے قومی سلامتی خطرے میں پڑی، انکوائریاں ہوئیں، استعفے لیے گئے، نوٹیفیکیشن ریجکٹ کیے گئے، اور سرل المائیڈا جو اپنی بہت شستہ انگریزی میں فوجی بھائیوں کو بوائز بوائز کہتا تھا میڈیا کے منظر سے غائب ہو گیا۔
اسی طرح کچھ اور صحافی بھائیوں نے میڈیا سے فارغ کیے جانے کے بعد اپنے یوٹیوب چینلز کھول لیے۔ (میرے ایک دوست نے ریت بجری کا دھندہ بھی شروع کر دیا ہے)لیکن یہ یوٹیوب چینل بھی صبح شیو کرتے ہوئے انھی کے سنے جاتے ہیں جو پہلے انسان ہونے کے سرٹیفیکٹ حاصل کر چکے ہوں۔(بشکریہ بی بی سی اردو)۔۔