میڈیا ٹریبونلز وزارت قانون و انصاف کے تحت کام کرینگے،عملدرآمد کیلئے طویل سفر درکار ہے،نئے قانون میں ٹریبونلز کے اختیارات ،ججز کی تقرری،شکایت کا طریقہ کار، سزائوں کا تعین ،اپیل کی تفصیلات طے کی جائینگی، ازخود نوٹس کا اختیار ہوگا۔وفاقی کابینہ کی طرف سے میڈیا سے متعلقہ متنازع امور کیلئے خصوصی ٹریبونلز بنانے کے اصولی فیصلے کے باوجود اس پر عمل درآمد کیلئے حکومت کو قانون سازی سے پارلیمنٹ سے منظوری تک کا طویل سفر طے کرنا ہو گا ۔۔روزنامہ جنگ کے مطابق وزارت اطلاعات و نشریات اور وزارت قانون و انصاف کو متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے نئے قانون کی تد وین کرنا ہو گی جس میں مجوزہ میڈیا ٹریبونلز کے اختیارات ، ججز کی تقرری ، شکایات درج کرانے کے طریقہ کار ،سزائوں کا تعین اور ٹریبونلز کے فیصلے کے خلاف اپیل کی تفصیلات طے کی جائیں گی، یہ طے ہونا بھی باقی ہے کہ مجوزہ میڈیا ٹریبونلز کو لیبر ٹریبونلز کی طر ح سیشن کورٹ یاسروس ٹریبونلز کی طرز پر ہائی کورٹ کے مساوی اختیارات ملیں گے ؟جس کی روشنی میں فیصلہ ہو گا کہ مجوزہ ٹریبونلز کے فیصلے کےخلاف اپیل ہائی کورٹ میں ہو گی یا سپریم کورٹ میں تاہم اصولی طور پر یہ طے ہوا ہے کہ مجوزہ میڈیا کورٹس کو کسی بھی مسئلے میں ازخود نوٹس لینے کا اختیار ہو گا اورمیڈیا کورٹس دیگر خصوصی عدالتوں کی طرح وزارت قانون و انصاف کے تحت کام کریں گی، 2018 میں حکومت نے اس معاملے پر کام کاآغاز کیا تھا ، جس کیلئے پیمرا ، پریس کونسل اور سائبر کیلئے پی ٹی اے کو ملا کر پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے نام سے نیا ادارہ بنانے کی تجویز تھی تاکہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کےکام میں یکسو ئی پیدا کی جاسکے ، پرنٹ میڈیا کیلئے پریس کونسل کے فیصلوں کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا جاتا رہا ہے اور پریس کونسل کو از خود نوٹس لینے کا بھی اختیار نہیں، موجودہ حکومت، اپوزیشن کشیدہ تعلقات کے پس منظر میں پارلیمنٹ سے مجوزہ میڈیا کورٹس کے قانون کی منظوری سب سے اہم اور مشکل مرحلہ ہو گا، حکومت کی طرف سے یہ بتایا گیا کہ یہ ٹربیونلز اعلیٰ عدلیہ کی نگرانی میں کام کریں گے ،حکومت کی جانب سے نیا قانون اور میڈیا کورٹس بنانے کا مقصد بظاہر یہ ہے کہ بعض عناصر کی طر ف سے آزادی اظہار کی آڑ میں حکومتی شخصیات پر کسی ثبوت کے بغیر الزامات عائد کئے جاتے ہیں اور ان کی نجی زندگی کو ٹاک شوز میں زیر بحث لایا جاتا ہے، ذرائع کے مطابق پیمرااور پریس کونسل کے موجودہ قوانین میں یہ سقم پایا جاتا ہے کہ یہ ادارے بے بنیاد پروپیگنڈے کے ازالے میں ناکام رہے ہیں، میڈیا کورٹس ملک بھر میں قائم ہونگی اور ان کا دائرہ اختیار حکومت قانون کے ذریعے طے کرے گی اور انہیں از خود نوٹس لینے کا اختیار بھی دیا جارہا ہے ۔دریں اثنا وزیرمملکت پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا ہے کہ میڈیا ٹریبونلز کے قیام کا مقصد کسی کیخلاف جعلی خبروں کا تدارک کرنا ہے، جعلی خبریں نہیں نشر ہونی چاہئیں باقی میڈیا کو آزادی ہے، اسی طرح کسی چینل کو اشتہار زیادہ دیئے یا فائدہ دیا جارہا ہے تو اس پر بھی بات ہوسکتی ہے۔ وہ جیو کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں ن لیگ کے رہنما سینیٹر جاوید عباسی اور پیپلز پارٹی کی رہنما سینیٹر روبینہ خالد بھی شریک تھیں۔سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ میڈیا کی آزادی پر میڈیا ٹریبونلز کے ذریعہ قدغن لگانا قبول نہیں ہے، میڈیا پر کنٹرول کیلئے پیمرا کا ادارہ موجود ہے، جعلی خبروں سے متعلق سائبر کرائم قانون پہلے ہی منظور ہوچکا ہے اس پر عملدرآمد کیا جائے۔وزیرمملکت پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ میڈیا کی اہمیت اور کردار سے متعلق سب جانتے ہیں، میڈیا ٹریبونلز میڈیا کوہی مضبوط کریں گے، اس کا فائدہ ہوگا کہ اگر کسی شخص پر الزام ہے تو وہاں اس پر سوال اٹھایا جاسکے گا، میڈیا ٹریبونلز کے قیام کا مقصد کسی کیخلاف جعلی خبروں کا تدارک کرنا ہے، جعلی خبریں نہیں نشر ہونی چاہئیں باقی میڈیا کو آزادی ہے، میڈیا کے کسی شخص کو کسی حکومتی شخص سے شکایت ہے تو وہ بھی میڈیا ٹریبونلز میں اپنا کیس پیش کرسکے گا، اسی طرح کسی چینل کو اشتہار زیادہ دیئے یا فائدہ دیا جارہا ہے تو اس پر بھی بات ہوسکتی ہے۔ علی محمد خان نے میڈیا کا کردار تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ہماری تحریکوں میں میڈیا کا اہم کردار رہا ہے ، اس موقع پر حامد میر کا کہنا تھا کہ ہماری تحریکوں میں آپ کا دور ہے، مشرف کے دور میں میڈیا پر پابندی لگی تھی اور مجھ پر پابندی لگی تو عمران خان میرے روڈ شو میں بھی آتے تھے اب شاید نہیں آئیں گے۔