Media tribunals

میڈیا ٹریبونلز اور آزادی صحافت

تحریر: محمد سعید اظہر

حکومت میڈیا کی گھات میں آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہے۔ پریس کے کردار کا معاملہ نہایت حساس ایشوز سے مرکب ہے اس پر نہ ایک کالم میں گفتگو ہو سکتی ہے نہ ایک کالم میں اس کے تاریخی کردار کے حوالہ سے کوئی یقینی ڈیکلریشن دیا جا سکتا ہے، مثلاً حکومتوں نے ’’پریس کی آزادی‘‘ کو ’’ختم، محدود یا کنٹرول‘‘ کرنے کے حوالے سے جس کردار کا مظاہرہ کیا صرف اسی پر صفحات کے صفحات سیاہ کئے جانے پر بھی کم پڑ جائیں گے، حکومتوں اور حکمرانوں کا موقف مظلومیت، بے گناہی یا لاعلمی کے باب کی باری آتے آتے آئے گی۔ چنانچہ فی الوقت اِسی پر رہتے ہیں یعنی عمران خان حکومت کس طرح آہستہ آہستہ میڈیا کی گھات میں آگے بڑھ رہی ہے۔

طریقہ یہ اختیار کیا گیا ہے کہ ’’وفاقی کابینہ نے میڈیا سے متعلق شکایات کے فوری ازالے کے لئے اسپیشل میڈیا ٹربیونلز بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو نئے اور زیر التواء مقدمات اور شکایات کا 90دن میں فیصلہ کریں گے جس میں بشمول حکومت تمام اسٹیک ہولڈرز کا احتساب ہو سکے گا۔

یہ ٹربیونلز اعلیٰ عدلیہ کی نگرانی میں کام کریں گے۔ میڈیا ٹربیونلز کے قیام کے بعد پریس کونسل اور پیمرا کی تشکیل نو کے بعد ایک باڈی بنائی جائے گی۔ کابینہ نے اس امر پر نہایت تشویش کا اظہار کیا کہ بعض عناصر کی جانب سے آزادیٔ اظہار کی آڑ میں شخصیات پر بغیر کسی ثبوت اور آڑ کے الزامات لگائے گئے اور وزیراعظم سمیت وزراء کی نجی زندگیوں کو بے بنیاد پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا گیا۔

وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد معاون خصوصی وزارت اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے وفاقی کابینہ کے ان فیصلوں کی حکومتی نقطہ نظر سے مزید تشریح و توضیح کی ضرورت کا بھی احساس کیا۔ترجمان حکومت پاکستان بسلسلہ وزارتِ اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی تشریح و توضیح کے نکات پر اپنی رائے کو تھوڑی دیر کے لئے ایک طرف رکھتے ہوئے ہم خود میڈیا کے تناظر میں تاریخی طور پر اپنے خیالات پیش کرنے کی جسارت کر رہے ہیں۔

عمران حکومت کی جانب سے قومی میڈیا کے خلاف گھات بازی کے سلسلے میں قومی پریس نے فوری ردعمل ظاہر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہمارے اپنے اخبار ’’جنگ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق ’’میڈیا تنظیموں، انسانی حقوق کمیشن اور سیاسی جماعتوں نے میڈیا ٹربیونلز مسترد کر دیئے۔

بغیر مشاورت ٹربیونلز کا قیام صحافت کے لئے سیاہ دن ہے، خلاف آئین ہے، میڈیا کو کنٹرول اور آزادی اظہار پر پابندی کا ایک حربہ ہے، میڈیا ٹربیونلز جمہوری کلچر کے استحکام میں رکاوٹ ثابت ہوں گے، کیسے امید کی جا سکتی ہے کہ ٹربیونلز آزادی صحافت کا خیال رکھیں گے‘‘۔

یہ قومی پریس کا مجموعی ردعمل ہے جس پر ابھی گفتگو کریں گے۔ ہم نے اس گفتگو میں سیاسی جماعتوں کے بیانات کو شامل نہیں کیا مثلاً پیپلز پارٹی کی قیادت نے اعلان کیا ’’کسی قیمت پر میڈیا ٹربیونلز کا بل پاس نہیں ہونے دیں گے۔

یہ آزادی صحافت کا قتل ہے، ’’آمرانہ سوچ ہے‘‘ جبکہ پیپلز پارٹی اس قسم کی گفتگو اور اعلان کا تاریخی استحاق رکھتی ہے۔ آزادی صحافت کے لئے جیسی جنگ پیپلز پارٹی نے لڑی ہے کوئی دوسری سیاسی جماعت قومی سطح پر شاید ہی اس کا مقابلہ یا دعویٰ کر سکے۔

سیاسی جماعتوں کو چنانچہ ایک طرف رکھتے ہوئے حیران کن امر یہ ہے کہ خود پریس میں عمران حکومت کے حامی عناصر اور عناصر بھی وہ لوگ جن کے لکھے کو لوگ پڑھتے اور اہمیت دیتے ہیں پریشان ہیں مثلاً صہبائی صاحب کی رائے کے مطابق ’’خان صاحب کے میڈیا کے مشیر ابھی تک کوئی قابل عمل اور پریکٹیکل حل پیش نہیں کر سکے۔ جو لوگ ان کے قریب ہیں وہ ہر وقت اس خوف میں ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں کوئی بنی گالہ سے ان کی چھٹی نہ کرا دے۔

ایک میڈیا پرسن جو خان صاحب کے کافی قریب ہو گئے تھے اچانک ایک خبر کے بعد فارغ کر دیئے گئے۔ کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو کبھی میڈیا کے آزاد تجزیہ کار بن جاتے ہیں اور موقع ملتے ہی کوئی نہ کوئی حکومتی عہدہ پکڑ لیتے ہیں، آپ اگر خان صاحب کے قریب آ گئے ہیں تو پھر ان کا پہلا کام اپنی نوکری بچانا ہے نہ کہ خان صاحب کو ایسے مشورے دینا جس کی وجہ سے میڈیا کسی حد تک ہمدرد رہے اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو نہ اچھالے۔

یہ صہبائی صاحب کی ذاتی اپروچ ہے بہرحال عمران حکومت کے حوالے سے قومی میڈیا کو جس طرح یہ حکومت ڈیل کر رہی ہے، جس قسم کے عناصر اس کے اردگرد رقص کناں ہیں ان کے طرزِ فکر سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اس حکومت کا بھلا کرنے کے بجائے لوگوں سے حقائق چھپاتے اور عمران حکومت کے زوال اور عوام کے مصائب میں اضافہ کر رہے ہیں۔

یہ ہے عمران حکومت کی قابلیت اور یہ ہے ہماری بدقسمتی کہ ہم لوگ ذہنی طور پر نابالغ افراد کے ہتھے چڑھ چکے ہیں ورنہ ایسی بھی کوئی اندھیر گردی نہیں مچی ہوئی کہ عمران حکومت کو عوام کی تکالیف اور عذابوں کا بالکل ہی اندازہ ہی نہ ہو۔

چنانچہ جب کوئی حکومت میڈیا کے لئے خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں لائے جیسے کام کرے اور کہے، حکومت سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کا احتساب ہو سکے گا، یہ عدالتیں نئے اور زیر التوا مقدمات اور شکایات کا 90دن میں فیصلہ کریں گی چونکہ حکومت کے بقول ’’آزادیٔ اظہار کی آڑ میں بعض عناصر نے اعلیٰ حکومتی شخصیات پر بغیر ثبوت الزامات لگائے، وزیراعظم سمیت وزراء کی نجی زندگیوں پر بے بنیاد پروپیگنڈا کیا گیا، یپمرا اور دیگر ادارے موثر کردار ادا نہیں کر رہے۔

تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان صاحبہ کی تسلیاں اور وضاحت اپنی جگہ مگر عمران حکومت اظہار رائے کی آزادی کے صاف ستھرے سفر میں کانٹے دار درختوں کی موجودگی کے ارادوں سے شاید ہی باز آئے، خیر وقت ہمارے خیال میں دسمبر سے پہلے پہلے عمران حکومت بمقابلہ مظلوم عوام کوئی نہ کوئی فیصلہ کن تصویر سامنے لانے کا سپنا دے رہا ہے۔(بشکریہ جنگ)

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں