بلاگ: ملک سلیمان
ذرائع ابلاغ کی اہمیت اور افادیت سے کسی کو انکار نہیں ،ٹی وی چینلز کی حیثیت ابلاغ میں ریڑھ کی ہڈی سی ہے ،نیوزچینلز خبر کا بہترین اور موثر ذریعہ ہیں جو معلومات کی بروقت فراہمی کیلئے ہر کسی کی بنیادی ضرورت ہے۔تیز رفتاری کا یہ عالم ہے کہ ہر خبر فورا سے پہلے کے مصداق ٹی وی سکرین پر موجود ہوتی ہے۔ذرائع ابلاغ کا کام عوام کو باخبر رکھنا ہے ، پرنٹ میڈیا کو اس میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔پرنٹ میڈیا نہ صرف ہر خبر کی تفصیل فراہم کرتا ہے بلکہ ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی خبرکو مکمل تحقیق اور ذمہ داری سے پہنچاتا ہے۔اسی لیے بے شمار نیوز چینلز کی تمام تر تیزیوں اور چکا چوند کے باوجود پرنٹ میڈیا نے اپنی شناخت کو نہ صرف قائم ودائم رکھا بلکہ آج بھی آگاہی کیلئے ہرکسی کی ضرورت اورخاص طور پر مڈل کلاس طبقہ کی آواز سمجھا جاتا ہے۔الیکڑانک میڈیا کی بات کریں توخبروں کے ساتھ مثبت تفریح بھی لازم ہے۔طنزومزاح پر مشتمل مزاحیہ سیاسی پروگرامات اچھی کاوش ہیں لیکن جب سے صحافتی میدان میں کامیڈین آنا شروع ہوئے ہیں نیوزچینلز کی صحافتی اور اخلاقی اقدار کا جنازہ نکل چکا ہے۔جب صحافت میں بھانڈ اور مراثی آجائیں گے تو پھرخیر کی امید کیونکر رکھی جاسکتی ہے۔لمحہ فکریہ ہے کہ مختلف نجی چینلز پر تفریح کے نام پر پیش کیے جانے والے مزاحیہ پروگرامات میں لوگوں کی عزت ِ نفس مجروح کرکے معززین کا مذاق اڑا یا جارہاہے ۔الٹے سیدھے ناموں اور برے القابات سے پکارا جاتا ہے اور مختلف رشتوں پر مبنی کرداروں میں پیش کی جانے والی اخلاق باختہ گفتگو بھی خونی رشتوں کی عظمت و احترام اور ہماری اسلامی و مشرقی روایات کے منافی ہے۔دوسروں کو ملکی قوانین کی پاسداری اور اخلاقیات کے لمبے چوڑے لیکچر دینے والے میزبان اینکرز خود اخلاقیات کی تمام حدیں پھلانگ چکے ہیں ،پیمرا قوانین اور صحافتی اقدار کو بری طرح پامال کر رہے ہیں۔لگتا ہے کہ تفریح کے نام پر عام آدمی سے لیکر سیاستدانوں تک سب کو ڈی گریڈ کرنا اوربے حیائی کو ترویج دینا مقصود ہے۔مستقل کرداروں میں پروفیسرجیسے قابل احترام اور اعلی منصب پر فائز شخصیت کوانتہائی تضحیک آمیز رویے کے ساتھ شرمناک جملے کسے جاتے ہیں،جو کہ اینکرز کی تعلیمی استعداد ،تخریبی سوچ اور ناقص تربیت کی عکاسی کرتا ہے کہ قوم کو بے جا بے مقصد اور بے لگام تفریح کے بخار میں مبتلا کیا جارہا ہے۔سب ریٹنگ کی دوڑ میں حواس باختہ ہوئے ہیں اور خوداعتمادی کا یہ عالم ہے کہ بسا اوقات مزاحیہ تفریحی پروگرامات لائیو بھی پیش کئے جاتے ہیں۔جس کا نتیجہ ہے کہ کامیڈین سالہا سال سے سٹیج ڈراموں میں لازوال پرفارمنس جن پر پولیس کے چھاپے بھی پڑتے رہے ہیں ۔۔لائیو ٹی وی شو میں ایسے بے حیائی اور بے شرمی والے فقرات بھی بول جاتے ہیں کہ جسے لکھتے ہوئے قلم شرما رہا ہے جبکہ وہ تمام اخلاق باختہ فقرے معروف ٹی وی شوکی زینت بن کر نیوز چینل سے آن ائیر ہوچکے ہیں۔ اس کے برعکس بین الاقوامی چینلز کے تقریبا70فیصد پروگرامات ریکارڈ شدہ ہوتے ہیں اور آن ائیر ہونے سے قبل تصدیق کی جاتی ہے کہ یہ پروگرام ملک کی سرحدوں کے خلاف تو نہیں، مذہبی ومسلکی منافرت پر مبنی تو نہیں،کسی کمیونٹی کی دل آزاری کا باعث تو نہیں۔یہاں آوے کاآوا ہی بگڑا ہوا ہے ،آخر یہ سب کیا ہے؟الیکٹرانک میڈیا تفریح کے نام پر کیا دے رہا ہے؟اور اس سے کیا ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔آخر الیکٹرانک میڈیا اپنی ذمہ داریوں کو کب سمجھے گا اور معاشرے کیلئے مثبت سوچ کب اپنائے گا۔صحافتی آزادی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ دوسروں کی آزادی سلب کرلیں اور آزادی ِ صحافت کی آڑمیں معززین کو بدنام کرنے کے درپے ہوجائیں۔پیمرا کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے اور ایسے افراد کے خلاف پیمرا ایکٹ کے تحت کاروائی عمل میں لائی جائے۔مذیدازاں پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز آرڈیننس 2015کے سیکشن 17اور 18کے مطابق سیاستدانوں کی کارٹون، بلاگ،تجزیہ میں تضحیک کرنا قابل گرفت جرم ہے جس پرقید اور جرمانہ کی سزا دی جا سکتی ہے،اس ایکٹ کے تحت کسی بھی خلاف ورزی کے مرتکب شخص یاادارے کو بغیر وارنٹ فوری گرفتار کیا جاسکتا ہے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہئیے کہ کسی بھی امتیاز اور تعصب کے بغیرپریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز آرڈیننس کے تحت جرم کے مرتکب افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا ہائوسز مالکان اپنا احتساب کریں اورریٹنگ کی دوڑ میں سرپٹ بھاگنے کی بجائے اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور آزادی صحافت کے نام ہونے والے اس کھلواڑ کا حصہ نہ بنیں ،بے لگام تفریح اور جانبداری یہی وجوہات ہیں کہ لوگوں کا الیکٹرانک میڈیا سے اعتبار ختم ہوتا جارہا ہے ،یہ مکافات عمل ہے کہ نیوزچینلز پر دوسروں کی شکلیں اور نام بگاڑ کر تضحیک کرنے والے اینکرز آج سوشل میڈیا جو کہ کروڑوں پاکستانیوں کی آواز بن چکا ہے پر انہی اینکرز کی بگڑی ہوئی شکلیں ،طنزیہ نام اور بیشمار لعن طعن نظر آتی ہے۔ابھی بھی وقت ہے کہ مثبت اور تعمیری صحافت کو فروغ دے کر الیکٹرانک میڈیا کا وقار بحال کیا جائے۔(ملک سلیمان)