تحریر: سلیم نواز
اس دور میں میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جارہا ہے ، لیکن یہ ستون اب صرف چند اینکرز تک محدود ہیں ، جن کو دنیا ئےصحافت اور ان کے دیکھنے والے بخوبی جانتے ہیں ۔ حال ہی میں لاہور کے چند نام ور کرائم ، کورٹ رپورٹر زاور چند ایک پروڈیوسرز سے ڈرائیونگ لائسنس میں مدد مانگنے کی التجاء کی تو سب نے مختلف طریقوں سے انکار کیا ، خیر جب ایک لاچار اور شریف شہری جوپولیس گردی کاستایا ہوا تھا، اس بے بس کی مدد کی درخواست کی لیکن سب بے بس یا ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے ۔ خود میرے والد جو پولیس گردی کا عرصہ 5 سال سے شکار ہے لیکن آج تک دربدر ہے ۔
افسوس کہ پردے کے پیچھے بیٹھے ویڈیو ایڈیٹرز، کانٹنٹ رائٹرز، کاپی ایڈیٹرز، اسائنمنٹ ایڈیٹرز،گرافک ڈیزائنرز،پروڈیوسرز، کیمرامین جو کہ ٹی وی چینل کی جان ہے وہ سب اس صحافت کا حصہ نہیں سمجھے جاتے۔پردے پر مسکراکر معیشت، سیکیورٹی، دفاع،خارجہ پالیسی، کرنٹ افیئرز، پولیٹیکل افیئرز،کھیل اور شوبز پر رٹا لگا کر قوم کی رہنمائی کرنے والے یہ اینکرز اپنے علاوہ میڈیا ہاوسز کے تمام اسٹاف کو نوکر مانتے ہیں جبکہ خود کو صحافی کہتے ہیں ۔
میراتعلق خود شعبہ صحافت سے ہے اور عرصہ 3 سال سے اس پیشے سے وابستہ ہوں ، ماس کمیونکیشن اور جرنلزم کے طالبعلم اپنے کیرئیر میں یہ سوچ رکھتے ہیں کہ ایک فون کال پر صحافیوں کا کام ہوجاتا ہے ، لہذا ان بچوں کویہ سمجھنا چاہئے کہ صحافت چند لوگوں کی میراث بن چکی ہے ، 15 سے 20 اینکرز ، 30 رپورٹرز اور گنتی کے تجزیہ کار ہی اداروں ، سیاستدانوں ، وزیر ، مشیروں اوی اربا ب اختیار کی نظر میں صحاٖفی ہے جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ صحافت پر اب چند لوگوں کا راج ہے ۔ یہ سچ ہے کہ اب میڈیا صرف چند اینکرز کا ہے ۔ ( سلیم نواز)