تحریر: سید بدرسعید۔۔
صحافت کے طالب علموں کا بڑا مسئلہ میڈیا کونسلنگ ہے ۔ صحافت میں ہمیں میڈیا کے کئی شعبوں سے متعلق پڑھایا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے ان شعبوں کی اہمیت اور کونسلنگ پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ یہی صورت حال فیلڈ جرنلسٹ کی ہے ۔ میرے بہت سے صحافی دوستوں کو لگتا ہے کہ وہ جو کام کر رہے ہیں اس کے سوا انہیں کوئی اور کام نہیں آتا ۔ یہ خوف انہیں کم تنخواہ ، استحصال اور بے روزگاری کا شکار رکھتا ہے ۔
میرے خیال میں ایسا نہیں ہے ۔ میرے بہت سے صحافی دوست اگر اس خوف سے باہر نکل آئیں تو انہیں اندازہ ہو کہ وہ ماس کمیونی کیشن کے دیگر شعبوں میں بہت اچھا پرفارم کر سکتے ہیں کیونکہ بنیادی سٹرکچر تو وہی ہے جس کے وہ ماہر ہیں ۔ مثال کے طور پر صرف نیوز کے شعبے میں ہی خود کو اپ گریڈ کرنا ہو تو جسے اخبار کی خبر بنانا آتی ہے وہ ٹی وی چینل اور ڈیجیٹل میڈیا پر بھی اچھی خبر بنا سکتا ہے ۔اخبار مینول خبر کا ادارہ ہے جہاں زیادہ سے زیادہ ان پیج ،آفس وغیرہ پر خبر ٹائپ کر لی جاتی ہے ، انچ اور الفاظ کی کیلکولیشن کی جاتی ہے اور پیج سانچے میں لگا کر کم یا زیادہ یو جاتی ہے ۔چینل میں یہی چیز مختصر کر دی جاتی ہے ۔ ٹیکرز بن جاتے ہیں ،وی او اور او سی کے ساتھ کاپی تیار ہو جاتی ہے ۔ ویب پر یہی خبر ڈیجیٹل ریٹنگ کے حساب سے بن جاتی ہے ۔فرق صرف یہ ہے کہ چینل میں آپ کو “سافٹ ویئر” استعمال کرنا ہوتا ہے اور ویب پر اپ لوڈنگ کا طریقہ سیکھنا ہوتا ہے ۔طریقہ کار سیکھنے کے لیے یہ زیادہ سے زیادہ تین چار دن کا کام ہے ۔
بہرحال یہ تو ایک شعبے کی اپ گریڈیشن ہے جو آج کا موضوع نہیں ہے
ہمارا مسئلہ میڈیا کونسلنگ ہے ۔ آپ یونیورسٹیوں کا چکر لگا لیں ۔ ہر دوسرا طالب علم نیوز رپورٹر اور ہر پہلا طالب علم اینکر پرسن بننا چاہتا ہے ۔ کاپی ، اسائنمنٹ پر کی تو بات ہی کہیں نہیں جہاں سب سے زیادہ لوگ جاتے ہیں ۔ پروڈکشن میں بھی اتنا رجحان نہیں ہے ، ایڈورٹائزنگ اور پبلک ریلیشنز میں جانے کا خواہش مند آج تک کوئی نظر ہی نہیں آیا
میڈیا میں پیسوں کا گلو اس کے برعکس ہے ۔پہلے طلبا ہی نہیں میڈیا پرسنز کی ترجیحات ترتیب سے دیکھیں
اینکر
رپورٹر
پروڈیوسر
اسائنمنٹ
کاپی
پرائیوٹ پروڈکشن ، ڈرامہ پروڈکشن ، ڈاکومنٹریز
پبلک ریلیشنز
ایڈورٹائزنگ
اب میڈیا میں پیسوں کا فلو دیکھیں
سب سے زیادہ پیسے ایڈورٹائزنگ کے شعبے میں ہیں ۔ میڈیا ایڈورٹائزنگ کی وجہ سے چلتا ہے
برانڈ اپنی اپنی ایڈ ایجنسی کے ذریعے ہی اشتہار دیتے ہیں
میڈیا ریٹنگ کی جس دوڑ میں ہاگل ہوا جاتا ہے ۔ یہ ریٹنگ ایڈ ایجنسیوں کے لیے ہوتی ہے تاکہ وہ زیادہ بجٹ دیں
ایڈ ایجنسیاں میڈیا کو بجٹ دینے سے پہلے اپنا حصہ رکھتی ہیں ۔
میں نے سب سے زیادہ خوشحال ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کے ملازمین کو دیکھا ہے جو بھاری تنخواہیں لیتے ہیں ۔ مجھے میڈیا میں صرف کامسٹ یونیورسٹی کے ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ ڈاکٹر سہیل ریاض راجہ ہی ملے جو طلبا کو ایڈورٹائزنگ کی اہمیت بتاتے اور اس شعبہ میں جانے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔سر سہیل ریاض راجہ نے ہی ہونڈا کمپنی کا یہ سلوگن لکھا تھا “میں تے ہونڈا ای لے ساں “۔
اس کے بعد جو اہم شعبہ ہے وہ پبلک ریلیشنز کا ہے ۔ 2018 کے بعد میڈیا کا جو ڈاؤن فال چلا اس میں بہت سے صحافیوں نے پی آر کی جاب کو ذریعہ روزگار بنایا ۔ کچھ مستقل اس جانب آ گئے ،کچھ نے عارضی طور پر کام کیا لیکن ان سب کو اندازہ ہو گیا کہ پی آر مینجر کی مارکیٹ میں کتنی اہمیت ہے اور ان کا پے پیکج کتنا اچھا ہے ۔ پبلک ریلیشنز کی پوری دنیا میں اہمیت ہے ، پاکستان میں اس کا بہت سکوپ ہے۔ امریکا میں تو باقاعدہ پی آر اور لابسٹ کمپنیاں کام کر رہی ہیں ۔ایک اطلاع کے مطابق حال ہی میں تحریک انصاف نے بھی 25 ہزار ڈالر ماہانہ پر امریکی لابنگ کمپنی کی خدمات لی ہیں تاکہ وہ ان کے امریکا سے تعلقات بہتر بنائے ۔دیگر سیاسی جماعتیں بھی ایسی کمپنیز کی خدمات لیتی ہیں ۔اس سے اس شعبے کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔میڈیا سیل بھی اسی شعبہ کا حصہ ہیں ۔
اس کے بعد پروڈکشن میں آپ اچھے پیسے کما سکتے ہیں خصوصا ڈرامہ انڈسٹری ، پرائیوٹ پروڈکشن ،ایونٹ مینجمنٹ ، فوٹو گرافی ، ایونٹ شوٹ وغیرہ ۔ یہ ڈیمانڈنگ شعبہ ہے جس میں صحافت کے طالب علم اچھے پیسے کما سکتے ہیں
میڈیا میں ڈیسک جاب یعنی کاپی ،اسائنمنٹ اور نیوز پروڈکشن میں بہت زیادہ پیسے نہیں ملتے لیکن بہرحال رہقرٹنگ کی نسبت بہتر پیکج مل جاتا ہے ۔ عموما یہ پیکج 1 لاکھ سے کم کا ہوتا ہے ۔ یہاں زیادہ تر وہ لوگ کام کرتے ہیں جو اینکر بننے آتے ہیں اور یہاں جاب کے دوران ساری عمر رپورٹنگ کا خواب دیکھتے ہیں یا اس کے لیے کوشش کرتے ہیں ۔ بہت کم لوگ یہاں سے زیادہ پیکج والے شعبوں میں موو کرتے ہیں
اگر آپ پریشان نہ ہوں تو بتاؤں کہ میڈیا میں سب سے کم تنخواہ رپورٹنگ کی ہے ، چند ایک رپورٹرز اچھا پیکج لے رہے ہیں لیکن اوسط تنخواہ 20 ہزار کے لگ بھگ ہے ۔ یہ وہ سیکرٹ ہے جو میڈیا کے طالب علموں کو نہیں بتایا جاتا ۔ نیوز میڈیا میں ایک لاکھ سے زیادہ تنخواہ چند ایک ہی لیتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایکسٹرا کوالٹی کے حامل ہیں۔ سب سے زیادہ سخت ڈیوٹی بھی رپورٹر اور ڈیسک والوں کی ہے
اینکرنگ کے حوالے سے بھی ہمارے یہاں ابہام پایا جاتا ہے ۔اینکر کو سکرین ملتی ہے لیکن بہت سے اینکرز کا پیکج 1 لاکھ سے کم ہے ۔ میں ایسے کئی اینکرز کو بھی جانتا ہوں جو 50 ہزار سے کم تنخواہ پر کام کر رہے ہیں ۔ہمارے یہاں جن اینکرز کے لاکھوں اور کروڑوں روپے پیکج ہے وہ دو ہاتھوں کی انگلیوں پر گنیں تو انگلیاں ختم ہونے سے پہلے اینکرز کے نام ختم ہو جاتے ہیں ۔ان میں سے بھی زیادہ تر کو تنخواہ کی بجائے کمیشن ملتا ہے یا وہ پروگرام خود پروڈیوس کر کے بیچتے ہیں ۔مثال کے طور پر اشتہار کا کمیشن 30 فیصد ہے تو جو اینکر ایک مہینے میں 1 کروڑ کے اشتہارات بھی لا رہا ہے اسے 30 لاکھ کمیشن ملے گا ۔ آپ جن بڑے اور مہنگے اینکرز کو جانتے ہیں وہ وقت پر یہ بات جان گئے تھے ۔ان کی ایڈورٹائزنگ ٹیم ذاتی ہے ۔ان کے نام پر اشتہارات ملتے ہیں ۔ وہ اگر مہینے کے دو کروڑ کے اشتہار لاتے ہیں تو 60 لاکھ ان کا کمیشن بھی تو بنتا ہے ۔ یہ اینکر جس چینل میں جائیں وہاں اپنی پوری ٹیم ساتھ لیجاتے ہیں ۔ آپ تقریبات میں ان چند مہنگے اینکرز کے علاوہ باقی اینکرز ، سینئر صحافیوں سے ملیں ۔آپ کو اندازہ ہو گا کہ انہوں نے بھرم ہی رکھا ہوا ہے ۔ ایک ہی کوٹ ہر تقریب میں چلتا ہے ۔ جینز پر کوٹ ، ڈریس پینٹ پر بلیک یا بلیو کوٹ ، لنڈے کی رنگ برنگی شرٹس وغیرہ آپ تھوڑی سی توجہ سے پہچان جائیں گے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اوپر کی کمائی سے بچے ہوئے ہیں اس لیے بھرم رکھے ہوئے ہیں
آپ نیوز میڈیا میں جانا چاہتے ہیں تو یہ اچھی بات ہے ۔ اپنے کیریئر کا حتمی فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے ۔ نیوز میڈیا اہک اچھا شعبہ ہے لیکن اس کے لیے اب آپ کا مالی طور پر مضبوط بیک گراؤنڈ کا ہونا ضروری ہے ۔ نیوز میڈیاآپ کو عزت دیتا ہے لیکن پیسے نہیں دیتا ۔ فی زمانہ مہنگائی میں گھر پیسوں کے بنا نہیں چلتے ۔ ہمارے بہت سے صحافی دوست بچوں کی سکول فیس نہیں دے پاتے _ کئی کئی ماہ تنخواہ نہیں ملتی ۔ یہ نیوز میڈیا کی صورت حال ہے کیونکہ صحافت میں سب سے کم بجٹ نیوز میڈیا کو ملتا ہے ۔ پیسے ایک اٹل حقیقت ہے جس کے بنا زندگی مشکل اور تلخ ہو جاتی ہے ۔
آپ نیوز میڈیا کا حصہ بننا چاہتے ہیں تو آپ کو بیک اپ سورس آف ارننگ کی ضرورت ہو گی ۔ کوئی فیملی بزنس سیٹ اپ ،زمینوں کی آمدن ،مکان دکانوں وغیرہ کا کرایہ وغیرہ ضروری ہے ورنہ آپ زندگی میں پریشانی کا شکار رہیں گے ۔ اگر آپ میڈیا اور پیسے دونوں انجوائے کرنا چاہتے ہیں تو میڈیا کے دیگر شعبوں کا انتخاب کر سکتے ہیں ۔
یاد رہے یہ تفصیل ان افراد کے لیے ہے جو حق حلال پر یقین رکھتے ہیں اور بلیک میلنگ یا اوپر کی کمائی کے قائل نہیں ۔اگر آپ نے میڈیا میں ایمان ہی بیچنا ہے تو آپ کے لیے یہ تحریر ایک بکواس کے سوا کچھ نہیں ہے (سید بدر سعید)
میڈیا سے پیسے کیسے کمائیں؟
Facebook Comments