تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
کسی وزیر سے بات ہورہی تھی میں نے پوچھا: یہ جو آپ کہتے ہیں کہ پچھلے حکمران سب کرپٹ اور نالائق تھے‘ اس کا کیا مطلب ہے ؟ وہ ہنس کر بولے: آپ کو سب پتہ ہے ‘ آپ لوگ ہی رپورٹ کرتے رہے ہیں ان کے سکینڈلز۔ ہمیں تو آپ لوگوں سے پتہ چلتا تھا۔ میں نے کہا: اگر وہ حکمران اہل اور ایماندار ہوتے تو آپ لوگوں کو کس نے اپنا حکمران منتخب کرنا تھا۔ لوگوں نے مان لیا کہ وہ کرپٹ تھے ‘ برے تھے‘ لہٰذا آپ کو لوگوں نے سر پر تاج پہنا دیا۔ آپ ابھی بھی ان کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ آپ کو تو ان کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ ان کی نالائقی کی وجہ سے آپ کی جگہ بن گئی اور آپ ہیں کہ ابھی تک وہیں پھنسے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا :میری بھی اگر کسی اخبار یا چینل میں جگہ بنتی ہے یا مجھے آفر ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ وہاں کام کررہے تھے وہ اچھا کام نہیں کررہے تھے لہٰذا میری ضرورت تھی ۔ اب میں اس اخبار میں بھی جا کر تین سال تک یہی کہتا رہوں کہ میں اس اخبار یا چینل کی حالت نہیں بدل پا رہا تو مطلب میں بھی اتنا ہی نالائق ہوں جتنے مجھ سے پہلے والے تھے ۔ مجھے تو اس لیے وہ لے گئے تھے کہ میری باتوں سے انہیں لگتا تھا کہ میرے جیسا قابل بندہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ اگلوں نے میری باتیں سن کر اخبار یا چینل کی پوری ٹیم ہی بدل دی اور مجھے کہا گیا کہ اب تم چلائو اور میں تین سال سے ایک ہی بات کہہ رہا ہوں کہ پچھلے خراب تھے ۔ اگر پچھلے خراب تھے اور میں بھی کچھ نہیں کر پایا تو مطلب میں بھی بیکار ہوں۔
وزیرصاحب مجھے عجیب نظروں سے دیکھنے لگے ۔ میں نے کہا: لوگ آپ کو اب پچھلوں کے اچھے برے ہونے پر نہیں جانچیں گے بلکہ آپ کو آپ کی کارکردگی کی بنیاد پر جانچا جائے گا اور بدقسمتی کہیں کہ آپ لوگوں نے ان تین‘ ساڑھے تین سال میں لڑنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ پاکستان میں عموماً کوئی بھی حکومت آتی ہے تو وہ پہلے تین سال میں تین کام ضرور کرتی ہے: پہلے سال وہ اپوزیشن پارٹیوں سے پارلیمنٹ میں لڑتی ہے ، جیل میں ڈلواتی ہے ، روزانہ ان سے مہا بھارت چلتی رہتی ہے۔ پھر دوسرے سال دوسری لڑائی آپ کی عدالت سے شروع ہوتی ہے کہ عدالت کون ہوتی ہے ہمارے معاملات میں مداخلت کرنے والی۔ وہ کیسے ہمارے فیصلوں پر ایکشن لے سکتی ہے یا سوالات اٹھا سکتی ہے ۔ نواز شریف ہوں یا بینظیر بھٹو، جنرل مشرف یا زرداری اور گیلانی سب عدالتوں سے لڑے ۔ اب خان صاحب بھی عدالتوں سے ناخوش ہیں اور اکثر بیانات دیتے رہتے ہیں۔اس کے بعد حکومت تیسرے سال میڈیا کے پیچھے پڑ جاتی ہے کہ یہ ہمیں نہیں چلنے دے رہا۔ میڈیا بک گیا ہے ‘ یہ جھوٹی خبریں لگا رہا ہے ‘ اس کا مکو ٹھپ دینا چاہیے ۔ یوں میڈیا سے لڑائی شروع۔ چوتھے سال حکومت کی لڑائی عسکری قیادت سے ہوتی ہے اور پھر نئے الیکشن قریب آجاتے ہیں یا پھر ڈان لیکس ہوتا ہے اور وزیراعظم جیل جا بیٹھتا ہے ۔
وزیراعظم کو کبھی سمجھ نہیں آتی کہ اس نے جو آخری لڑائی لڑ کر جلاوطن ہونا ہے یا جیل جانا ہے یانااہل ہونا ہے وہ اس وقت تک نہیں لڑی جاسکتی جب تک پارلیمنٹ، عدلیہ اور میڈیا کے ساتھ آپ کا رویہ اچھا نہ ہو اور ان اداروں کو مضبوط نہ کیا گیاہو۔ آپ آخری جنگ اس لیے ہارتے ہیں کہ آپ کے طاقت ور ونگز پارلیمنٹ، عدلیہ اور میڈیا کو خود کمزور کر چکے ہوتے ہیں؛چنانچہ آپ میں اتنی سکت نہیں رہتی کہ آپ آخری جنگ لڑسکیں‘ یوں طاقت ور ادارے اٹھا کر آپ کو جیل میں ڈال دیتے ہیں اور آپ روتے رہتے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا۔آپ کو خود سمجھ نہیں آرہی ہوتی کہ آپ کو کیوں نکالا گیا اور جیل ڈالا گیا۔اگر آپ خان صاحب کا مزاجِ حکمرانی اور انداز دیکھیں تو آپ کو صاف نظر آئے گا کہ وہ اس وقت اپنی چوتھی اور آخری لڑائی لڑنے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں سیاسی جماعتوں سے لڑ لیا، عدلیہ سے بھی ناراضی بنا لی اور میڈیا سے بھی خوب لڑ لیا۔ اب آخری لڑائی وہ عسکری اداروں سے لڑ رہے ہیں کہ انہیں لگتا ہے کہ وہ طاقتور طبقات اس وقت نواز شریف سے خفیہ رابطوں میں ہیں اور انہیں وطن واپس لانا چاہتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے پچھلے دنوں نواز شریف کی وطن واپسی کے حوالے سے کہا کہ سنا ہے انہیں ریلیف دلوانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اب ریلیف اس ملک میں دو ہی ادارے دے سکتے ہیں یا سپریم کورٹ یا پھر طاقتور حلقے ۔ اس کا مطلب ہوا کہ چاروں کے چاروں ادارے ہوں یا لوگ‘ وہ سب سے ناراض ہیں‘ سب سے خفا ہیں۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے معاملے میں اپنے طاقتور ہمدردوں سے بھی لڑ بیٹھے ۔ وہی ہمدرد جنہوں نے خان صاحب کا اس طرح خیال رکھا تھا کہ انہیں کانٹا بھی نہ چبھے ۔ کسی نے بھی عمران خان کو ہلکا سا تنگ کرنے کی کوشش کی تو اسے پکڑ کر نیب کے ذریعے جیل میں ڈلوا دیا یا وہ چینل یا چینل کا مالک جیل میں بند ہوا یا اشتہارات بند ہوئے یا وہ بندہ چینل کی نوکری سے گیا۔ اب ان ہمدردوں کو اچانک خیال آیا کہ جس جوان پر ہم نے اتنی سرمایہ کاری کی اور جس کی خاطر ہم نے نواز شریف کی دشمنی مول لی اس نے ایک لمحے میں پوری دینا کے سامنے ان سے ٹکڑ لے لی۔
یوں عمران خان پارلیمنٹ، عدلیہ، میڈیا اور مقتدرہ‘ سب سے باری باری ان ساڑھے تین سال میں لڑ چکے ہیں۔ اب جب حکومت نہیں سنبھل پارہی تو وہ پھر وہی گردان دہرا رہے ہیں کہ پچھلے حکمران کرپٹ تھے ۔ اور ملک کا دیوالیہ کر دیا۔ مزے کی بات یہ ہے عمران خان اور آصف زرداری کی حکومت کے وزیرخزانہ ایک ہی ہیں۔ حفیظ شیخ اور شوکت ترین دونوں زرداری کے وزیرخزانہ بھی تھے اور حفیظ شیخ عمران خان حکومت کے بھی وزیر رہے اور پھرشوکت ترین بنے۔ اب عمران خان کی جیسے شوکت ترین یا حفیظ شیخ پر نہیں چلتی تھی ایسے ہی زرداری اور گیلانی کی بھی آئی ایم ایف کے ڈر کے مارے نہیں چلتی تھی‘ لہٰذا پیپلز پارٹی دور سے شروع کریں کہ انہوں نے بیڑا غرق کیا تو اس کا مطلب ہے کہ حفیظ شیخ اور شوکت ترین نے ہی بیڑا غرق کیا ہوگا‘ اور وہ دونوں عمران خان کے وزیر ہیں۔سمجھ نہیں آتی کہ زرداری گیلانی تو کرپٹ تھے‘ جنہوں نے ملکی اکانومی بٹھا دی‘ قرضے لے کر ملک کو دیوالیہ کر دیا لیکن جنہوں نے قرضے لیے اور اکانومی بٹھائی وہ دونوں عمران خان کے نزدیک قابل اور اچھے ہیں بلکہ اتنے اچھے ہیں کہ شوکت ترین کو تو باقاعدہ پی ٹی آئی نے سینیٹر بنوادیا اور حفیظ شیخ کو بنوا رہے تھے کہ وہ ہار گئے ۔
اگر دیکھا جائے تو عمران خان اپنا سیاسی وقت پورا کرچکے ہیں۔ یہی تین چار سال ہوتے ہیں جن میں آپ نے پچھلے حکمرانوں سے بہتر گورننس اور آسانیاں پیدا کرنا ہوتی ہیں۔اگر ان برسوں میں بھی آپ کی سوئی وہیں اٹکی ہوئی ہے تو سمجھ لیں کہ آپ کے پاس کرنے کو کچھ نہیں اور نہ عوام کو دکھانے کیلئے کچھ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب عمران خان ہوں یا ان کے وزیر، ان کی باتوں میں اثر ختم ہوگیا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے عمران خان نے جن پارٹیوں کو بائیس برس کی محنت کے بعد زیرو کیا تھا اب انہیں اتنی ہی محنت سے تیس ماہ میں نہ صرف سیاسی طور پر زندہ کر دیا ہے بلکہ وہ اگلی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔اگر زرداری یاشریف دوبارہ پاور میں آئے تو اس کا کریڈٹ آپ سب کو‘ دل بڑا کر کے عمران خان کو دینا ہوگا۔(بشکریہ دنیانیوز)