تحریر: ڈاکٹر مجاہد منصوری۔۔
حکومت کی دو سالہ کارکردگی کی رپورٹ کے اجراء پر وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے دو سالہ حکومتی کارکردگی کی رپورٹ کے اجراء پر کھلے دل سے اعتراف کیا ہے کہ ’’میڈیا سے بگاڑ کر مہنگائی کنٹرول کرنے میں ناکامی اور احتساب پر ہم سے غلطیاں ہوئیں ہیں ‘‘۔بلاشبہ یہ اعترافی بیانیہ جرات مندانہ ہے غلطیوں کے اعتراف کی اپنی طاقت ہوتی ہے، جو حکمرانوں میں تب پیدا ہوتی ہے جب وہ دل سے اس کے ازالے پر آمادہ ہوتے ہیں، یوں وہ جیسے بھی ہوں کچھ بھلا کر گزرتے ہیں۔میں حکومتوں کی ایسی غلطیوں کو جن سے پریشان حال عوام اور پریشان ہو جائیں ،یا ملک کو نقصان پہنچے غلطیاں نہیں ڈیزاسٹر کہتا ہوں۔جن کا ازالہ نہیں کفارہ مطلوب ہوتا ہے ۔حکومتی غلطیوں، نااہلی اور کرپشن جیسی بدعنوانی سے قوم و ملک کو اذیت اور خسارے کا ازالہ مذہبی فریضے کی حدتک ناگزیر ہوتا ہے۔
سو اسے وہ بھی ازالہ نہیں کفارہ ہی جانیں، جو مسلمان کے لئے دینی فرض کے مساوی ہے۔ عمران حکومت کے متنازع سیٹ اپ کی یہ خوبی بشمول وزیر اعظم ضرور ہے کہ وہ اپنی اور اپنی حکومتی غلطیوں کا اعتراف وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں لیکن خان اعظم اور ان کے بااعتماد اور اہل وزراء اتنا ضرور ذہن نشیں کر لیں کہ فقط اعتراف (اور غلطیوں کی توضیحات) کرنا اور کفارے سے گریز ’’عذر گناہ بدتر از گناہ‘‘ کے مترادف ہے، جس کے اشارے تینوں ہی اعتراف کئے گئے ڈیزاسٹرز، میڈیا سے بگاڑ، مصنوعی مہنگائی پر قابوپانے میں ناکامی اور متنازع ہوتے احتساب کے حوالے سے مل رہے ہیں۔
ان کے واضح ہونے اور فری کوئینسی بڑھنے کا گراف بھی بلند ہوتا معلوم دے رہا ہے۔ تاہم قومی معیشت اور میگاپراجیکٹس کے حوالے سے بہتر گورننس ، ٹرانسپرنسی اور کام میں تیزی کے گراف میں بلندی کی طرف کرب واضح اور قوم و ملک کے لئے حوصلہ افزا ہے۔لیکن یہ دور رس نتائج کا حامل ہے۔جبکہ میڈیا سے بگاڑ، اشیائے خورونوش اور دیگر بنیادی ضرورتوں کی عوام کو آسان دستیابی میں حائل مافیاز کو قابو کرنے میں ناکامی اورجاری احتسابی عمل میں آئے بڑھے جھول کو ختم کرنے میں حکومت اعتراف کے باوجود بددستور ناکام ہی جا رہی ہے۔ اگر یہ اعتراف ’’دو سالہ کارکردگی رپورٹ‘‘ کا حصہ بھی ہے اور اسے صرف وزیر منصوبہ بندی کی ذاتی رائے کہہ کر خسارے والا دفاع نہیں کیا جاتا تو پھر حکومت دینی فریضے کی ادائیگی کی حد تک پابند ہوگئی ہے کہ وہ اس کا ازالہ کرے۔
وزارت کا قلمدان سنبھالتے ہی حکومتی حلقوں اور اپوزیشن دونوں ہی کی جانب سے یکساں خوش آمدید عزت و احترام وصول کرنے والے وزیر اطلاعات نے حکومت کے میڈیا سے ان کی حکومت کے پیدا کئے بگاڑ کو ختم یا کم کرنے کیلئے کچھ بھی تو نہیں کیا۔پی ٹی آئی کی حکومت آنے پر حکومتی رویے سے میڈیا انڈسٹری سے وابستہ فقط تنخواہ دار حلال خور صحافیوں اور ملازمین و ورکرز پر جو معاشی عذاب نازل ہوا اسے ختم یا کم کرنے کےلئے ’’اونچی پگڑی والے ‘‘ وزیر اطلاعات نے اپنے وعدوں اور وقت کی نزاکت کے باوجود کچھ بھی تو نہیں کیا۔شبلی صاحب کو خبر ہے کہ صحافی اور جملہ عملہ بحران میں کس معاشی کرب میں رہا اور بدستور ہے ؟ آزادی صحافت بمطابق حکومت کا مسئلہ الگ ہے اور بہت توجہ طلب، جس طرح آئی پی پیز کے سینکڑوں ارب کے گھپلے بے نقاب کرنیوالے صحافیوں کو ملازمتوں سے نکلوا یا گیا اور نیب کو ووکل میڈیا کو قابو کرنے کیلئے بطور پریشر ٹول استعمال کیا گیا اور کہا جا رہا ہے جتنے اور جیسے غیر آئینی اور غیر قانونی، اور بدتر سیاسی انداز سے میر شکیل الرحمٰن کو بذریعہ نیب گرفتار کرکے پانچ ماہ سے پس زنداں رکھا ہوا ہے اس پر آتے ہی عزت کمانے والے وزیر صاحب نے کیا کیا؟
آئین نو‘‘میں پھر ایک بار (متعدد بار کہا جا چکا)عمران حکومت پر واضح کیا جا رہا ہے کہ قیام پاکستان کی تحریک کے چار بڑے پوٹینشل دو قومی نظریہ اس کی آبیاری کے لئے آل انڈیا مسلم لیگ کا سیاسی پلیٹ فارم، مسلمانان ہند کی باوقار بااعتماد مکمل اہل اور غیر متزلزل قیادت کو حاصل مطلوب درجے کی ابلاغی معاونت (بشکل مسلم صحافت) تھے۔تہتر سالہ ہماری تاریخ نے اب یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ 22کروڑ کی مکمل جمہوری مزاج کی قوم کی مملکت کی تعمیر مسلسل اور نیشن بلڈنگ کے مطلوب اہداف کے حصول کے لئے ’’آزاد اور ذمے دار میڈیا‘‘ اتنا ہی ناگزیر ہے جتنا مسلمانان ہند آل انڈیا مسلم لیگ اور حضرت قائداعظمؒ جیسی ولولہ انگیز قیادت کو وہ ابلاغی معاونت مطلوب تھی جو انہیں تا قیام پاکستان اثر انگیز دانشوروں اور صحافیوںسےحاصل رہی۔
سو وزیر اعظم عمران کی ابلاغی معاونت کا سیٹ اپ اس تاریخ اور قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں 60کے عشرے کے زرعی و صنعتی انقلاب، 65کی جنگ میں افواج اور قوم کا مورال ستاروں کی بلندی پر لے جانے والی پھر سیاسی و جمہوری عمل میں پہاڑ جیسی رکاوٹوں کے باوجود اسے چلاتی اور ترقی کے ہر سیکٹر کو سرگرم کرنے اس میں خامیوں خرابیوں کی مسلسل نشاندہی اور اس کی نتیجہ خیزی کے حوالے سے میڈیا کے کردار سے اتنی ہی نابلد ہے جتنا ثابت ہو رہا ہے تو اس کی کیپسٹی بلڈنگ اورلاحاصل اصلاح کا تجربہ فوراً ترک کر دیا جائے۔وزیر اعظم اپنے معتمد وزیر عمر اسد کے اس بیانیے پر غور کریں ’’میڈیا ہی نے اصلاحات کا بیانیہ عوام تک پہنچانا تھا اور اصلاحات کا عمل میڈیا کے تعاون سے ہی ممکن ہے‘‘۔وزیر اعظم متعدد بار اعتراف کر چکے ہیں کہ ان کے اقتدار میں آنے کی کامیابی میڈیا کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھی۔امر واقعہ یہ ہے کہ بلامبالغہ، عمران حکومت کا سب سے بڑا دو سالہ ڈیزاسٹر ہی یہ ہے کہ اس نے دانستہ میڈیا کو بری طرح بگاڑ کر اپنا اس سے تعلق بدتر کر لیا۔
فوری مطلوب عوام کی ممکن خدمت کے حوالے سے اپنی گورننس کی اصلاح کا راستہ خود ہی بند کر دیا اور اب سب کچھ واضح ہونے اور اس کے اعتراف کے باوجود کفارے کیلئے تیار نہیں جو بدتر ازگناہ ہے۔ میڈیا کو مرضی برابر قابو کرنے کے مشورے دینے والے کوڑ مغز ہیں یا خطرناک مصلح ۔شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔(بشکریہ جنگ)۔۔