آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیراہتمام پاکستان لٹریچر فیسٹیول کوئٹہ چیپٹر کے دوسرے روز بلوچستان میں قومی میڈیا کا کردار کے موضوع پر سیشن کا انعقاد کیا گیا ، سیشن میں مظہر عباس ، شہزادہ ذوالفقار ، سلیم شاہد ، شاہ زیب جیلانی ، شاہد رند اور رفعت سعید نے اظہار خیال کیا جبکہ نظامت کے فرائض ابصا کومل نے انجام دیئے ۔ سینئر تجزیہ نگار مظہر عباس نے کہا کہ عملی طور پر بلوچستان کے حوالے سے صرف یہ خبر آتی ہے کہ کوئی لاپتہ ہوگیا ہے ، دراصل میڈیا سے بلوچستان لاپتہ ہوگیا ہے ، بلوچستان کے بے شمار صحافی مارے گئے ہیں ، بہت سے آن ڈیوٹی مارے گئے ، بہت سے بم بلاسٹ میں مارے گئے ، بہت سے صحافیوں کے دفاتر پر حملے ہوئے لیکن صحافت ختم نہیں ہوئی بہت سے لوگ صحافت میں آرہے ہیں ۔ سلیم شاہد نے کہا کہ وفاق میں ہماری کوئی شنوائی نہیں ، ہمیں وہ حق نہیں ملتا جس کے ہم حقدار ہیں ، یہاں پر ٹی وی چینلز کے بیورو آفس بند کردئیے گئے ہیں ، بلوچستان سے جانے والی خبروں کونظر انداز کیا جاتا ہے ۔ شہزادہ ذوالفقار نے کہا کہ آپ کو کے پی کے ، سندھ اور پنجاب خبروں میں نظر آئے گا لیکن بلوچستان بہت کم نظر آئے گا ۔ پاکستان کے لوگوں کو سمجھنا پڑے گا کہ کوئٹہ کے لوگوں کو بھی ہنسنے مسکرانے کا حق ہے ، جب نیشنل میڈیا کوئٹہ کے مسائل کو اجاگر نہیں کرے گا تو لوگ سوشل میڈیا کا سہارا لیں گے ، جب آپ تین بھائی کو پروٹوکول دیں گے اور ایک پر غور نہیں دیں گے تو وہ اپنے لئے راستہ خود نکالے گا ۔ رفعت سعید نے کہا کہ ہم سارا وقت سیاستدانوں میں الجھے ہوتے ہیں بحث اتنی لمبی ہوجاتی ہے کہ بلوچستان کا نمبر ہی نہیں آتا ، شاہ زیب جیلانی نے کہا کہ بلوچستان کے صحافی ایک ٹراما سے گزر رہے ہیں ، بلوچستان میں رپورٹنگ کرنے پر مجھے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔ شاہد رند نے کہا کہ مسئلہ وہاں سے شروع ہوتا ہے جب آپ ایک سائیڈ کا سچ بتاتے ہیں اور دوسرے سائیڈ کا سچ آپ کو پتا نہیں ہوتا ۔ ہمارے ہاں کا صحافی ایکٹیوسٹ بن گیا ہے ۔ نیشنل اسٹوری کے ساتھ خود کو جوڑنے کے لیے آپ کو نیشنل سیاستدان سے بھی بات کرنی ہوگی ۔