تحریر: نادرشاہ عادل
یہ میرے ایم اے فائنل کا زمانہ تھا، فٹ پاتھ سے کتابیں خریدنے کا جنون تھا، لیاری میں حسن قصرقندی، غلام قادر اور قلندر بخش کتابی کیڑا تھے، میں نہیں سمجھ سکا کہ لیاری کے ایسے لاتعداد گمنام نوجوانوں کا شاندار اور تابناک مطالعہ رائیگاںکیسے گیا، وہ لوگ ہوا کے دوش پر رکھے ہوئے چراغوں کی طرح کیسے بجھ گئے۔کیوں تاریکی بڑھی، پھر جب ن، میم دانش نے لیاری میں ظہورکیا ، منفرد شاعری میں شناخت پائی، عروج حاصل کیا اور زاہدہ حنا کی رفاقت و قلمی تعاون ، مشاعروں، ڈیبیٹ سے اردوکالج میں تہلکہ مچایا تو آرٹس کونسل کی ایک تقریب میں پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے کہا کہ ن م دانش کی شاعری تفکر آمیز ہے۔
موقع مناسب دیکھ کر سجاد میر نے لقمہ دیا کہ لیاری کے ن م دانش کو میں نے نادرشاہ عادل کے توسط سے دریافت کیا کیونکہ شاہ جی کی مادری زبان بھی بلوچی ہے جنھیں اکثر دوست غلطی سے حیدرآباد دکن کی گدڑی کا لال سمجھتے ہیں۔کئی دوست آج بھی کہتے ہیں کہ شاہ جی آپ کی اردو گفتگو اور تحریر میں بلوچیت اور‘‘ اڑے واجہ کب بجے گا باجہ‘‘ کی فاروق پراچہ والی بے ساختیت نہیں ہے، میں انھیں بتاتا ہوں بندہ پر تقصیرفٹ پاتھ کی کتابوں کا طالب علم ہے ، میری اور ہر نئی نسل کی زندگی اور ان کا مستقبل کتب بینی سے عبارت ہونا چاہیے۔ ہم جیسے بے منزل نوجوانوں کا پورا لڑکپن اور جوانی لیاری میں پرانی کتابوں کی دشت کی سیاحی میں گزری۔
کوڑھی گارڈن، ریگل چوک، ٹاور، لائٹ ہاؤس، فیروز سنز ، نور محمد بک سیلرز ،کے ایم سی اسٹیڈیم، بند روڈ (ایم اے جناح روڈسابقہ) غلام علی ، شیخ شوکت علی بک شاپ کے علاوہ جس جگہ پرانی کتابوں کا سرمایہ دیکھا اور پتھارے پر ادبی ماہنامے، ویکلی رسالے دیکھے ان کا شکارکیا، اسی حوالہ سے مختار رانا کا سوال تھا کہ جب اردو کی اچھی کتابوں کا ذخیرہ کرلیا ہے تو بیٹے اب گریمراورکمپوزیشن کو خیر باد کہہ دو ۔کیا آپ کو ماضی استمراری،ماضی مجہول یاد ہونگے۔
میں سنتا رہا، خاموش تھا، اندرکی دنیا میں ایک ارتعاش سا آیا کہ باتیں رانا جی کی درست ہیں ۔ اب مجھے داغ دہلوی کی شاعری، میر وغالب اور فیض وفراز، میر گل خان نصیر، سید ہاشمی، مبارک قاضی اور محمد بیگ بلوچ کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ انگریزی ادب پر توجہ دینا ہوگی۔والد نے بھی کہہ دیا تھا کہ جب پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کررہے ہو تو اردو جرنلزم کا کیا بنے گا، صحافی تو خبریں بنانے سے ہی بنتا ہے جس طرح مشہور ہے کہ اردو زباں آتی ہے آتے آتے۔ مجھے والد صاحب کی خوشنویسی ، شاعری، تراجم اور خطاطی کے تجربوں سے بھی واسطہ پڑا تھا، میں ان کے لیے ریشم کا کیڑا تھا۔
مجھے مختار رانا نے ایک کلیدی فقرہ کہا کہ ’’نادر بیٹے آپ نے اردو کی کتابیں پڑیں تو اردو لکھنا آگیا،اب انگریزی پڑھنا شروع کروگے انگریزی بھی آجائے گی، یہ تاکید مجھے انگریزی ڈان اخبار کے فضل بلوچ نے کی کہ شاہ جی انگریزی ناول پڑھو۔ خبرکی کاپی نکھرے گی۔ مختار رانا کی بات میں نے یاد رکھی کہ گریمر اور کمپوزیشن ایک حد تک لازم ہے مگر ان کی کتابیں پڑھنے سے جارج برناڈشا کی انگریزی نہیں آئے گی۔
آج سوچتا ہوں اور خاصا فکری و ذہنی بحران میں مبتلا ہوں کہ پرنٹ میڈیاکی موت کے نقارے بجتے دیکھتا ہوں تو کیا کروں ، نئی نسل کو کس طرح حوصلہ دیا جائے کہ وہ کتابوں سے دوستی کرلے، اچھا ادب پڑھے، ممتازکالم نویسوں کی تحریروں کو اپنے نصاب میں شامل کرے، اردو زبان پر توجہ دے، فصیح اور بلیغ زبان کی جمالیات سے قربت پیدا کرے، نئی نسل کو باور کرانے کی ضرورت کون پوری کریگا کہ یہ عہد اردو صحافت اور زبان کے زوال کا نہیں،اس کے نشاۃ ثانیہ کا ہے۔ ڈونٹ جوک ! کتنی بار مجھے اپنے سینئر اور نوجوان صحافیوں نے بصد ادب ٹوکا کہ شاہ جی کس عہد میں جی رہے ہو،کہاں کی اردو کلاسیکیت، کون سی اردوصحافت، میڈیا پر نزع کا عالم ہے، ریختہ کے تم ہی استاد نہیں ہو ۔ بڑے صحافی مزیدکتنے دن چلیں گے ، صحافت کو بھی ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی کمرشلائزیشن نے نوچ لیا ، ٹیسٹ کرکٹ کی نسل ہی برباد ہوگئی ۔
لیکن جہاندیدہ جرنلسٹس جہاں کہیں ملتے ہیں وہ یقین دلاتے ہیں پرنٹ میڈیا مررہا ہوگا لیکن لفظ نہیں، کتابیں انسٹافون سے شکست نہیں کھائیں گی، لیاری کا نوجوان عمران خان کی تبدیلی میں افتادگان خاک ہی رہے گا مگر علم سے اس کا تعلق رہے گا۔ افلاس سے نہیں۔ انشااللہ۔ ایک بس کنڈکٹر کا کہنا تھا کہ آپ نے کسی ایسے آدمی کو دیکھا ہے جو صحافت اور بسوں کے دھکے ایک ساتھ کھاتا ہو اور پھر یہ کہتا ہو ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے۔ میں یہ سن کر مسکراتا ہوں کہ کتنا معروضیت آشنا، حقیقت پسند اورانسان دوست شخص ہے۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔