media ki barbaadi ab bhugto

میڈیا پھر حکومتی نشانے پہ۔۔

تحریر: ناصر جمال۔۔

صحافی تاریخ دان نہیں ہے۔مگر وہ تاریخ کی درستگی ضرور کرتا ہے۔جو آگ تحریک انصاف نے سوشل میڈیا کے ذریعے لگائی تھی۔ اب اُسی آگ نے اُن کے گھر کا راستہ دیکھ لیا ہے۔ غصہ میڈیا پر نکالا جارہاہے۔ پیکا مایوسی غصے اور شکست کی انتہا ہے۔ ہمارے” خلیفہ“ تسلسل کے ساتھ سوشل میڈیا ٹیم کے اجلاس خود بھی کرتے رہے ہیں۔سب کچھ ریکارڈ کا حصہ ہے۔ حتیٰ کہ سرکار نے بھی پی۔ آئی۔ ڈی۔ میں میڈیا سیل بنایا تھا۔ تحریک انصاف کی دیکھا، دیکھی، کئی سیاسی اور مذہبی سیاسی جماعتوں نے بھی اس ’’ٹول‘‘ کا خُوب استعمال کیا۔ مگر (ن) لیگ، بطور خاص مریم نواز نے حکومت اور تحریک انصاف کے ٹائیگروں کو اس میدان میں ”بکری“ بنا دیا ہے۔ کیونکہ آج ساڑھے تین سالوں کی ’’اعلیٰ کارکردگی‘‘ کا دفاع کرنا، مشکل ہی نہیں، ناممکن بھی ہے۔ آج تحریک انصاف اخلاقیات کا درس دے رہی ہے۔ یقین مانیئے، لوٹ، پوٹ ہونے کا دل چاہتا ہے۔ جس پارٹی، اس کے لیڈروں اور ورکروں نے اخلاقیات کا صرف جنازہ نہیں نکالا، بلکہ اس کی تدفین بھی کردی۔ جیسے شائستگی ، تہذیب، ادب، تعظیم چھو کر نہیں گزری۔ وہ آج ’’سابقہ بھابھی‘‘ کی کتاب پر، کاٹ کھانے کو دوڑ رہی ہے۔ کبھی اپنے بال نوچتی ہے۔ کبھی دوسرے کا گریبان جا پکڑتی ہے۔ یہ مواد  بھی تو سوشل میڈیا پر موجود ہے ۔سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی برپا کرنے والے، ننگی اور گندی گالیاں دینے والے، ’’سوشل میڈیا ٹرولرز‘‘ آخر کیوں بے بس پڑ گئے ہیں۔ پگڑیاں اچھالنے والے، آج دفاع کیوں نہیں کرپارہے۔ حملہ کردو کی پالیسی کے ثمرات کہاں ہیں۔ لوگوں کی خواتین کو نشانے پر رکھنے والے، آج اپنے مردوں کا بھی دفاع کیوں نہیں کر پارہے۔

خلیفہ، شیخ سمیت کتنے ہی لوگوں کے’’کلپ‘‘ سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔بلاول بھٹو کو” بلو رانی“ کہنے والے اس کا کوئی تو جواز بتائیں۔ بدتمیزی، بدتہذیبی، گالی، بُرے رویوں کا کبھی کوئی جواز نہیں ہوا کرتا۔ صرف معافی مانگی جاتی ہے۔ ندامت، چہرے اور الفاظ پر غلبہ مانگتی ہے۔

آج شہری آزادیاں، بنیادی انسانی حقوق، اظہار رائے کی آزادی، خطرے میں نہیں، شدید ترین خطرے میں ہیں۔ اس پر بطور خاص سپریم کورٹ کی خاموشی، ناقابل یقین ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال، معزز گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ریاست کے تینوں ستون کی ورکنگ اچھے طریقے سے جانتے ہیں۔ انھیں چوتھے’’نام نہاد‘‘ ستون کا بھی پتا ہے۔ جو تمام تر خرابیوں کے باوجود، ڈٹ کر کھڑا ہے۔ وہی تو ہے تو جو معاشرے کی گھٹن کا ’’کھتارسز‘‘ کرتا ہے۔ جو جبر کے حبس میں تازہ ہوا کے جھونکے فرام کرتا ہے۔ جو کمزوروں اور مظلوموں کا دست و بازو بنتا ہے۔ جو عوام اور ملک کی آواز ہے۔ جو 74سال سے اکیلے ہی لڑے جارہاہے۔ اس کے سیٹھوں اور ایجنٹوں نے کتنے ہی حرم بدلے۔ مگر اس نے کلمہ حق بلند کیا۔ بقول سجاد لاکھا کے

جھوٹا ہے،خطا کار ہے، کمزور ہے لیکن

 تین ایک طرف، چوتھا ستون بول رہا ہے

قلم کار ضیاء الحق، مشرف کے مارشلا لاء دیکھ چکا ہے۔ سول ڈکٹیٹرز بھی دیکھے اور دیکھ رہے ہیں۔ بلکہ ’’بھگت‘‘ بھی رہے ہیں۔ جمہوریت اور مینڈیٹ پر ڈاکے لگتے، اقتدار پر قبضے اور اختیار بٹتے دیکھے ہیں۔ سب کی بے حسی، سنگدلی، اور ذات، ذات صرف ذات کے نغمے بھی سنے اور دیکھے ہیں۔ امپورٹیڈ وزیراعظم اور ترجمان دیکھے ہیں۔ یہ سب طاقت میں آنے سے پہلے خود کو ’’میڈیا‘‘ کے بیسٹ فرینڈز بتاتے اور جتاتے ہیں۔ مگر جب اقتدار میں آتے ہیں تو انھیں سب سے زیادہ میڈیا دُکھتا اور کھٹکتاہے۔ اسی لئے، میڈیا کو کبھی لفٹ اور رائیٹ میں تقسیم کرکے کنٹرول کرنے کے جال پھینکے گئے۔ پھریہاں جدت کے نام پر پیسیہ پھینک کر سیٹھ مسلط کر دیئے گئے۔ ایڈیٹر نام کا ادارہ برباد کر دیا گیا۔ ’’ضیافت‘‘ کرنے والوں کو صحافت چلانے پر مامور کردیا گیا۔ سیٹھوں نے صحافت کو نچا، نچا، کر مال پانی کے انبار نہیں انباروں کے پہاڑ قائم کرلئے۔ کچھ شریف سیٹھ تھے۔ اُن کے بچوں نے بزرگوں کی آنکھیں بند ہوتے ہی، بیعت کرلی۔ کچھ تھے ہی’’کروُ‘‘ ان کے بچے تو ’’چنڈالوں‘‘ کو بھی پیچھے چھوڑ گئے۔

اس کے باوجود، مٹھی بھر لوگ تھے۔ جنھوں نے حفاظت لوح و قلم کا بھاری پتھر اٹھا لیا۔ کیونکہ اکثریت، یہ پتھر چوم کر چھوڑ دیتی ہے۔ اس قبیلے کی ایک نسل، مٹی تلے جاسوئی۔ مگر قلم ریاست اور عوام سے دستبردار نہیں ہوئے۔ ایک اور نسل لڑ رہی ہے۔ جبکہ ایک اور نسل لڑنے کے لئے تیار ہورہی ہے۔

مجھے محسن بیگ سے بطور صحافی دلچسپی نہیں ہے۔ مگر بطور پاکستانی شہری کے، ان کے ساتھ، جو کچھ ہوا۔ وہ ناقابل قبول اور بھرپور مذمت کے لائق ہے۔ محسن بیگ‘‘ اس شہر کی غلام گردشوں اور کھلاڑیوں کا اہم مہرہ رہا ہے۔ آصف زرداری کے گھر کے سامنے عالی شان گھر ہے۔ مگر اُن کی نیوز ایجنسی میں صحافیوں اور دفتر کے حالات بدترین تھے۔ خود اسی دفتر کے اوپر والے پورشن میں موصوف کا نہایت شاندار دفتر رکھتےتھے۔ شاندار امپورٹیڈ گاڑی، اُسی پورچ میں کھڑی ہوتی تھی۔ میرےلئے، ان کا وہ رُوپ، ان کے بارے میں رائے قائم کرنے کے لئے کافی تھا۔ ان کے طارق عزیز سے مراسم، ان کا عروج تھا۔ وہ بادشاہ گر کہلانے لگے۔ حاجت مندوں کی قطاریں، درِ بیگ کا مقدر ٹھہریں۔ وہ بھی روایتی میڈیا سیٹھ ہیں۔ عزیزی علیم ملک سمیت، ایک طویل فہرست ہے۔ جو ان کو صحافی نہیں مانتی۔

غریدہ فاروقی، پیرا شوٹر ہیں۔ ان جیسے اینکرز اور پرچیاں پڑھنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ جو صحافت کی اے۔ بی۔ سی سے بھی نابلد ہیں۔ مگر سینئر تجزیہ کار، اینکر پرسن اور صحافت کی آبرو بنے ہوئے ہیں۔ یہ سب ہم نے نہیں کیا۔ ’’دوستوں‘‘ سیاستدانوں اور سیٹھوں نے کیا ہے۔ انھوں نے صحافت کو بالی وڈ بنا دیاہے۔ بالی وڈ آئیٹم سونگ کرنےوالوں کی طرح یہ صحافت کے آئیٹم والے ہیں۔مگر صحافت، آئیٹم کا نام نہیں ہے۔ آپ انھیں لیکر آئے ہیں۔ آپ ان کے موجد ہیں۔ پھر بھگتیں بھی آپ، ہم سے کیا گلہ کرتے ہیں۔ہم نے پہلے بھی بہت سے سیاہ قانون، بدنام زمانہ آرڈیننس دیکھے ہیں۔ حکومتوں کے جبر اور ’’دوستوں‘‘ کے وار سہے ہیں۔ آمروں کے کوڑے اور ڈنڈے، جرمانوں اور قید کے قوانین کا سامنا کیا ہے۔

آپ ان کو آڑ بنا کر ہمارا شکار کرنے چلے ہیں۔ صحافت اور صحافیوں کی ’’بَلی‘‘ طلب کررہے ہیں۔ آپ ڈرا کسے رہے ہیں۔ جو لوگ ’’تبدیلی‘‘ کو کاندھوں پر بٹھا کرلائے ہیں۔ ماضی میں اُن کے ’’ابو‘‘ بھی ہمارے قلم اور زبانوں کو بند نہیں کروا سکے۔ آپ اور فواد چوہدری تو ’’بچے‘‘ لگتے ہیں۔ یہ شہباز گِل اور خاور تو ایسے بھاگیں گے۔ دُبئی ایئر پورٹ پر اترنے تک تو سانس بھی نہیں لیں گے۔ اگر کسی کو غلط فہمی ہے تو الطاف حسین، مشرف، نواز شریف اور سابق صدر آصف زرداری سے پوچھ لیں۔ ڈریں، اُس وقت سے جب، میڈیا، حساب کتاب پر اُتر آئے۔

تبدیلی سرکار نے جتنا ڈرانا ہے۔ ڈرا لے،جتنے” ٹاڈا اور ڈریکونین لا“ لانے ہیں۔ لے آئیں ایف۔ ائٓی۔ اے کو بغیر وارنٹ گرفتاری کے جتنے چاہیں اختیار دے لیں۔ صحافت کو ناقابل ضمانت جرم بنا دیں۔ آپ کے پاس تو صرف سترہ ماہ بچے ہیں۔ کتنوں کو اندر کریں گے۔ آج یہ مراد سعید کی کارکردگی پر شادیانے بجارہے ہیں۔ تنقید پر تازیانے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہم یہ نہیں لکھیں گے کہ موٹروے پر پڑے، فٹ، فٹ کے گڑھے۔ ساڑھے چھ سو روپے کی دال کی پلیٹ مل رہی ہے۔ یہ وہ آئینہ ہے جس میں وہ اپنا اصلی کارکردگی والا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ مجھے کسی کے ذاتی کردار سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ کوئی کوکین پیئے یا چرس، کوئی کسی عورت سے تعلق بنائے یا مرد سے، یہ اُس کا ذاتی معاملہ ہے۔ وہ خود اور خدا کو جوابدہ ہے۔

  ”افریقہ کے وزیر اطلاعات“  بتائیں کہ چائنا سینٹر میں کئی سو ملین یا اس سے زائد کی جو رقم خرچ ہوئی ہے۔ وہ کیوں ہوئی ہے۔ معاملہ  کابینہ میں تھا۔ کیا وہ ریگولرائز ہوگئی۔  انکی وزارت اس میں گردن، گردن، تک دھنسی ہوئی ہے۔ جب بلڈنگ چینیوں نے  حوالے نہیں کی تو پھر،قومی خزانے سے اتنے بھاری اخراجات کیوں ہوئے۔

میراحق ہے کہ میں اپنے وزیراعظم سے بھی پوچھوں کے وہ تین ارب ڈالر کی نارتھ سائوتھ پائپ لائن کی وہ رُوس، عیاشی تو نہیں کرنے جارہے۔ یہ منصوبہ ایک عیاشی، ایک اسکینڈل ہے۔ یہ حکومت جواب دے۔ جی۔ آئی۔ ڈی۔ سی۔ کے سات سو ارب میں سے وصول ہونے والے چار سو سے پانچ سو ارب کہاں ہیں۔ گیس انفراسٹریکچر سیس کے پیسے، نارتھ، سائوتھ پائپ لائن پر لگیں تو ہمیں سوا۔ ارب ڈالر سے زائد کی بچت ہوگی۔اس پر  تفصیلی کالم کل لکھوں گا۔

قارئین۔۔ائیں اور قانون کی رو سے سوال ہمارا  حق ہے۔   ھمارے حکمرانوں کو توشہ خانہ سے لیکر گندم، چینی، پٹرول، گیس، سمیت ہر بحران کا جواب دینا ہوگا۔جبکہ ”افریقہ“ کی حکومت کو بتانا پڑے گا کہ اُس کا ایک وزیر کپیسی پے منٹ کی مد میں اربوں اور وھاں سے کٹ کئے جانے والی گیس بھی کیسے لے اڑا۔ یہ فرضی باتیں نہیں ہیں۔ ہماری اور افریقہ کی قوم  سوالوں کے جواب مانگتی ہے۔نیب اور ایف۔۔آئی۔ اے ۔ تحقیقات کیوں نہیں کرتے۔

کیا سدا حکومت پر نیب کی چھتری رہے گی۔ کیا ایف۔ آئی۔ اے حکمرانوں کے گھر کی لونڈی بن کر، اس ملک، قوم اور ریاست کی کبھی کوئی خدمت نہیں کرے گی۔ یہ جبر کے موسم، گھٹن کے منظر، طاقت کے اولے، صبر کے سفر کو طویل نہیں مختصر کرتے ہیں۔

آپ کو سوشل میڈیا سے نہیں، میڈیا سے پرابلم ہے۔ جس سے آپ ایک عرصہ لطف اندوز ہوئے ہیں۔ آپ نے معاشرے میں کتنے ہی ’’اعلیٰ، اخلاقی معیارات‘‘ قائم کئے ہیں۔ اب ڈر کیوں رہے ہیں۔ آپ کا  سوشل میڈیا کا سنپولا ، اژدھا بن چکا ہے۔ جو آپ کو ہی نگلنے پر اتر آیا ہے۔ آپ کی گھبراہٹ بتا رہی ہے کہ آپ اس سے ڈر گئے ہیں۔ صدر اور وزیراعظم کے سوشل میڈیا پر پابندی لگانے کے ماضی کے ٹویٹ ریکارڈ پر ہیں۔پھر آج ایسی کون سی قیامت ٹوٹ پڑی ہے کہ وہ سب کچھ خود کرنے چلے ہیں۔ٹی وی چینلز کا استثناء کیوں ختم کیا گیا ہے۔

 کشمیر کی ایسی تبدیلی اور سرجیکل اسٹرائیک کا معاملہ آیا، تو آپ کی گھگھی کیوں بندھ گئی تھی۔ آپ اور آپ کے موجد، قومی میڈیا، ذمہ دار میڈیا کی تسبیح اور راگ کیوں الاپ رہے تھے۔ آپ تو ہمیں مل کر ’’سپائن لیس‘‘ کرنے چلے تھے۔ پھر کیا ہوا۔پھر ہماری ضرورت کیوں پڑ گی۔مگر قومی میڈیا، بطور خاص بونا فائیڈی صحافیوں نے تو آپ سے اسکور سیٹل نہیں کیا۔ یکجہتی اور ذمہ داری کا ثبوت دیا۔ آپ کے ’’طوطوں‘‘ کی آواز پر تو کسی نے کان نہیں دھرے۔ کرائے کے قلم کاروں کو کون دنیا میں سیریس لیتا ہے۔تو پھر، آپ باز کیوں نہیں آتے۔ ہمیں عدلیہ اور فوج کے ڈرائوے کیوں دیئے جارہے ہیں۔ ہم نے اسکندر مرزا، ایوب، یحییٰ، ضیاء الحق، مشرف سب کو دیکھ ہے۔ حتیٰ کہ جسٹس منیر سے لیکر ثاقب نثار ، سب کی آنکھوں میں دیکھا۔ نہ وہ میڈیا کی آواز دبا سکے تھے۔ نہ آپ دبا سکیں گے۔ آپ کا تو چل چلائو ہے۔ میڈیا اور اپنے اتحادیوں پر بیک وقت چڑھ دوڑے ہو۔ سب کو ایف۔ آئی۔ اے کا ہنٹر دکھا رہے ہو۔ جب کسی حکومت کے دن قریب ہوتے ہیں۔ ایسے ہی فیصلے عجیب ہوتے ہیں۔

بہر حال صحافی ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ آپ نے جتنے نشانے لگانے ہیں لگالو۔ یہی گھوڑا اور یہی میدان ہے۔ ہم بھی یہیں ہیں۔ تم بھی یہیں ہو۔ جو ہوگا،دیکھا جائے گا۔ ہم تو دیکھتے آرہے ہیں۔ آپ اپنی سوچیں حضور۔۔۔۔(ناصر جمال)۔۔

chaar hurf | Imran Junior
chaar hurf | Imran Junior
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں