تحریر: جاوید صدیقی۔۔
ایکبار پھرسوشل میڈیا میں میڈیا انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی شخصیات پر الزامات کی بھرمار شروع ھوچکی ہیں، خاص طور پر بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض سے جڑی خبریں زیرگردشِ ہیں، پچیس سالہ میڈیا انڈسٹری سے تعلق رکھنے کے بعد میں صرف ایک بات جانتا ھوں کہ میڈیا انڈسٹریز مالکان سمیت ہر ایک پرسن کا آڈٹ، محاسبہ اور احتساب ناگزیر بن چکا ھے کیونکہ میڈیا انڈسٹری وہ واحد انڈسٹری ھے جہاں حرام اور بلیک میلنگ کے ذرائع وافر مقدار میں موجود ہیں، فراڈیوں، دھوکہ بازوں، جھوٹے، مکاروں، خائنوں اور منافقوں کی بہترین زرخیز مقام ھے اور اسی مقام میں ایماندار، سچے، دیانتدار، دینداروں کی بھی بڑی تعداد موجود ہے مگر یہ اپنی سچائی اور ایمانداری کے سبب سخت مشکل اور تکالیف سے نبردآزما رہتے ہیں
سوشل میڈیا پر آجکل بحریہ ٹاؤن کی طرف سے چند اینکروں اور تجزیہ نگاروں کو نوازے جانے کی معلومات شیئر ہورہی ہیں ان میں مبشر لقمان، ڈاکٹر شاہد مسعود، نجم سیٹھی، کامران خان اور حسن نثار، حامد میر، مظہر عباس، مہر بخاری، ماروی سرمد، مرحوم ارشد شریف، نصرت جاوید، مشتاق منہاس، جاوید چودھری، ثناء بچہ، منیب فاروق، آفتاب اقبال، سہیل وڑائچ، عصمہ شیرازی، سلیم صافی اور سمیع ابراہیم شامل جبکہ شیئر کرنے والوں کا دعویٰ ھے کہ ملک ریاض نے مزید بیشمار نام ظاہر نہیں کئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ غلط بیانی پر مشتمل ہیں اور الزام تراشی کی گئی ھیں، لیکن ان سب کو اس بابت وضاحت دینا اب اخلاقی قانونی اور مذہبی ذمہ داری بھی عائد ہوچکی ھے ۔
مجھے بتانے والوں نے بتایا نجانے کہاں تک درست ھے یہ تو آپ ہی بہتر فیصلہ کرسکتے ہیں کہ ایک معمولی راولپنڈی کا ٹھیکیدار جو اپنی چور بازاری اور سفید کالروں اور کالے جوتوں کیساتھ ملک پاکستان اور ریاست پاکستان کو باپ کی جاگیر سمجھتے ہوئے پھر صوبائی دو نمبری صاحب اقتداروں کیساتھ شہر شہر ہاؤسنگ اسکیم کے ذریعے پاکستان کا امیرترین شخص بن گیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ پشت پر بیٹھے نا خداؤں کی طاقتیں روز اول سے شامل رہی ہیں، اس دولت کے لوٹ گھسوٹ میں سابقہ و موجودہ چیف جسٹس صاحبان کیساتھ ساتھ بیشمار ججز بھی شامل رھے ہیں گویا آئین و قوانین امیر و کبیر کے جوتے کی خاک ہیں اور غریب و مظلوم اور حقدار عوام کے گلے کا پھندا۔۔۔۔ معزز قارئین!! اس وقت “دھندا ھے پر گندا ھے” محاروں میں سب ہی شامل ہیں۔ ریاست پاکستان کے چوتھے ستون میڈیا ہی اس قدر کرپٹ اور غلاظت سے لپٹا ھوا ھے کہ چند سکوں کے سبب اپنا ضمیر و ایمان فروخت کر بیٹھتے ہیں اگر یہ میڈیا کے بڑے بڑے مالکان صحیح، درست سمت، ایماندار اور سچے ہوتے تو نہ ہی رپورٹر بیلک میل کرتا نظر آتا اور نہ ہی اینکرز جھوٹ پر جھوٹ بول کر کسی غلط کی حمایت میں رات دن ایک کردیتا اور اگر یہ میڈیا درست سمت پروفیشنل ازم اور سچائی کیساتھ اپنے فرائض انجام دے رھا ہوتا تو صحافی کا قتل تو دور کی بات ایک میڈیا پرسن کو معمولی زخمی بھی نہیں کرسکتا تھا۔ خود میڈیا میں طاقت اور کمزور اور ہوس منصب کی لڑائی ہر وقت رہتی ھے جو جس قدر مالکان کے قریب رہتا اور انکی غلاظت پر پردہ ڈالتا ھے وہ اسی قدر ترقی اور مقام حاصل کرتا ھے جائز و ناجائز مراعات کے دروازے اس کیلئے کھل جاتے ہیں۔ یہاں واضع کرتا چلوں کی ملک ریاض بھی اب چینلز کا مالک بن چکا ھے اور اس نے کئی میڈیا شخصیات کو اپنی جیبوں میں رکھا ھے اسی سبب کوئی بڑی شخصیت ملک ریاض کو اسکا چہرہ اور اسکے خلاف آڈٹ، احتساب اور محاسبہ کرنے کا مطالبہ کرتا نظر نہیں آتے۔ حقیقت تو یہ ھے کہ ان سب کا گناہ اس قدر ھے کہ ان کا کیس سپریم کورٹ نہیں بلکہ شرعی عدالت میں چلانا چاہئے اور قرآن و حدیث کے تحت انکی اور انکے سہولتکاروں کی سرزشیں بیان کی جائیں اور آنے والوں کیلئے باعث سبق بن سکیں یاد رھے کہ ہائی کورٹ سے لیکر سپریم کورٹ تک بے مقصد اور فضول عدالتیں ہیں انکا خاتمہ ہی اس ملک کی سلامتی اور خوشحالی کا ضمانت ہیں۔ وطن عزیز پاکستان میں وائٹ کالرز مافیاء میں میڈیا، عدالت عظمیٰ، پارلیمینٹ و سینٹ اور سفید ٹائی اور پینٹ والے بھی شامل ہیں۔ کیا اس ریاست میں پنجے گاڑنے والے وائٹ کالرز مافیاء کا احتساب و محاسبہ اور خاتمہ ممکن ہوسکے گا ؟؟ پھر کون اس ملک کو اس وائٹ کالرز مافیاء سے ہمیشہ کیلئے جان چھڑا سکے گا عوام کی نظر منتظر ہیں ایک اچھے وقت کیلئے اور خوشحال پاکستان کیلئے۔۔(جاوید صدیقی)۔۔!!