ارکان پارلیمنٹ ، سینئر صحافیوں ، اینکر پرسنز ، ماہرین قانون و انسانی حقوق کے رہنماؤں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میڈیا پر پابندیاں انسانی حقوق اور آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے ۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ بد قسمتی سے دنیا آگے کی جانب بڑھ رہی ہے اور ہم پیچھے جا رہے ہیں۔ سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پی ایف یو جے اور انسانی حقوق کمیشن اس معاملے پر ملکر آگے بڑھیں۔۔ سیمینار سے حامد میر،شفیق چوہدری ، عامر غوری، صدف خان ، حارث خلیق، عابد ساقی ، سینیٹر جہانزیب، عاصمہ شیرازی و دیگر نے بھی خطاب کیا۔فصیلات کے مطابق پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پارلیمانی امور میں ”آزادی اظہار رائے کیلئے قانون سازی اور صحافیوں کا تحفظ “ کے زیر عنوان سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں سینئر صحافیوں، ماہرین اور قانون سازوں، انسانی حقوق کے علمبرداروں اور ارکان پارلیمنٹ نے خطاب کیا۔
انسانی حقوق تنظیم کے رہنما شفیق چوہدری نے کہا کہ حکومت نے سوشل میڈیا پر قدغنیں لگانے کیلئے پی ٹی اے (ایکٹ )اورپی ای سی اے( ایکٹ) کی مختلف شقوں میں ترامیم کر کے پاکستا ن میں آزادی اظہار رائے کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کی صدر صدف خان نےکہا کہ حکومت نے سوشل میڈیا و یب سائٹس اور سرچ انجنوں پر صارفین کا ڈیٹا فراہم نہ کرنے پر 50 کروڑ کے جرمانے عائد کرنے کااختیاردیاگیا ہے۔ حکومت کایہ اقدام اختیارات سے تجاوز ہے، سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا سوشل میڈیا پر قدغنیں انسانی حقوق اور آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے، بد قسمتی سے دنیا آگے کی جانب بڑھ رہی ہے اور ہم پیچھے جا رہے ہیں،آزادی اظہار رائے کو دبانے کیلئے بھارت میں جو کچھ نریندر مودی کر رہا ہےوہی ہم پاکستان میں کر رہے ہیں ،ہم پارلیمنٹ میں اس پر آواز اٹھائیں گے ، ارکان پارلیمنٹ اور میڈیا کے لوگوں کا مشترکہ پلیٹ فارم بنایا جائے۔(ن) لیگ کے سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ پی ایف یو جے طویل عرصے سے پاکستان میں آزادی اظہار کی جدو جہد کررہی ہے لیکن پھر بھی کچھ اچھے دن نظر نہیں آ رہے ، ہماری جمہوریت صحافت کے بغیراندھی جمہوریت بن چکی ہے۔حکومت کی طرف سے عوام کو بتایا گیا کہ طالبان اورمجاہدین ہماری جنگ لڑ رہے ہیں، اگر کسی نے اس پر سوال اٹھایا تووہ صحافت کے شعبے میں زیادہ عرصہ کام نہیں کرپایا جس کی ایک مثال حسین نقی ہیں ،پھرایک دن ہم کو کہا گیا ان کو دہشتگرد لکھو لیکن آج پھر کہا جا رہا ہے طالبان ہماری جنگ لڑ رہے ہیں، دراصل ہم ایک دائرے میں گھوم رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت سوشل میڈیا پر پابندیاں لگا کر نئی نسل کو دولےشاہ کے چوہے بناناچاہتی ہے،کم ازکم میں اپنی بیٹی کو ایسا نہیں دیکھنا چاہتا۔وکیل رہنماعابد ساقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ آج بھی یہاں نوآبادیاتی نظام چل رہا ہے، کچھ لوگوں کو مراعات دی جار ہی ہیں جبکہ کچھ لوگوں کو سخت قوانین بنا کر کنٹرول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،سینئر اینکرپرسن محمد مالک نے کہا کہ جب بھی کسی کی آ واز کو دبانامقصودہوتواس کیلئے قومی سلامتی کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتاہے۔سینیٹرڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ میڈیا کی زبان بندی کی کوشش شروع دن سے چل رہی ہے، موجودہ حکومت کی طرف سے بھی میڈیا کو مکمل طور پر اپنے زیر تسلط لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے سیکرٹری جنرل و سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اس قانون سے پاکستان تھری ایس اسٹیٹ بن کررہ گئی ہے ، پی ایف یوجے اور انسانی حقوق کمیشن کو اس معاملے پر ملکر آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ بالآخر یہ جنگ پارلیمنٹ میں لڑی جائے گی۔سینئر صحافی اور دی نیوز کے عامر غوری نے کہا کہ پارلیمنٹ اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں کرے گی تو ہمارے جیسے لوگوں کیلئے کام کرنا مشکل ہو جائے گا لیکن ہم یونہی زبان بند نہیں کر سکتے۔نیشنل پارٹی کے سینیٹر طاہر بزنجو نے کہا کہ ملک کو در پیش چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ ملک میں مضبوط ومستحکم جمہوریت موجود ہو جبکہ آزاد صحافت کے بغیر جمہوریت قائم نہیں ہو سکتی، لیکن مقتدرحلقے اپنی غلطیوں کو درست کرنے کی بجائے پرانی غلطیاں دہرا ئے جا رہے ہیں،سوشل میڈیارولزبھی اسی کاشاخسانہ ہے۔سینئر اینکرپرسن حامد میر نے کہا کہ سوچنے کی بات ہے اسطرح کے کالے قوانین کون لوگ لارہے ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ یہ قانون حکومت لیکر آئی ہے، ماضی میں جن لوگوں نے قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو غدار کہا تھا وہی لوگ آج یہ رولز لیکر آئے ہیں۔انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے کہا کہ یہ بلا شبہ ایک نوآبادیاتی ریاست ہے، سوشل میڈیا رولز پر بدنیتی کی بنیادپرلائے گئے ہیں ، پی آئی سی ایکٹ پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے ، سینئر اینکر پرسن عاصمہ شیرازی نے کہا کہ میں کسی اور کی جنگ نہیں لڑوں گی ،صرف اپنی جنگ لڑوں گی ، ایسا نہیں ہو گا ہم قومی مفادات کی دوبارہ بھینٹ چڑ ھ جائیں۔سینئر اینکر اویس توحید نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سوا ل پوچھنے کی اجازت نہیں اگر سوال پوچھیں تو صاحبان اقتدار کے ماتھے پر بل آ جاتے ہیں اور ان کی حب الوطنی پربھی سوال اٹھادیا جاتا ہے ، حکومت سمارٹ فون رکھنے والے سات کروڑ لوگوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔سینئر صحافی و دانشور امتیاز عالم نے کہا کہ میں نے انوشہ رحمن سے اس وقت بھی کہا تھا کہ پی ای سی اے (ایکٹ ) مت لاؤ، موجودہ حکومت اس سے بھی دوہاتھ آگے بڑھ کر فیس بک اور ٹوئیٹر کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے ،اس میں کوئی شبہ نہیں رہا کہ یہ ایک سکیورٹی سٹیٹ ہے۔سینئر صحافی ضیاالدین نے کہا کہ سوشل میڈیا رولز کے خاتمے کیلئے پارلیمنٹ کو ساتھ ملانا چاہیے لیکن اصل حکمران پارلیمنٹ کونہیں مانتے۔سینئرصحافی مطیع اللہ جان نے کہا کہ آزادی اظہار صرف صحافیوں کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے، سینئر صحافی حسین نقی نے کہا کہ قائد اعظم کے دور میں تین رسالے بند کیے گئے تھے،اس کے علاوہ لیاقت علی خان کے دور میں سکیورٹی ایکٹ لاکر صحافت پر قدغنیں لگائی گئیں۔سینئر صحافی و انسانی حقوق کمیشن کے سابق ترجمان آئی اے رحمن نے کہا کہ آخری اعلانیہ مارشل لاء31 دسمبر 1985 کو اٹھایا گیا تھا لیکن جمہوریت بحال نہیں ہوئی اور کوئی آزاد حکومت نہیں بنی، ہمیں پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ عوام کی عدالت میں جانا چاہیے لیکن حکومت کی نیت خراب ہے، چور دروازے سے ایک قانون بنالیاگیا ہے۔پیمرا اور پی ای سی اے (ایکٹ) دونوں غلط قانون ہیں، پاکستان کے صحافی دانشور ، رائٹر کسی ایسے قانون کو قبول نہیں کرسکتے جس پر ان سے مشاورت نہ کی گئی ہو، یہ سب کو شاہ دولے کے چوہے بنانا چاہتے ہیں اور ان کا ہدف عوام ہے، اصل میں یہ ریاست کی ملکیت کا مسئلہ ہے ، کیا ریاست ایک ٹولے کی ملکیت ہے یا پھر عوام کی ملکیت ہے۔