جیوکے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان علینہ فاروق کے سوال کیا پیمرا سے متعلق حکومت کی جانب سے کی گئی ترامیم درست ہیں؟ کا جواب دیتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہا کہ پاکستان میں پچھلے کئی سال سے میڈیا پر غیراعلانیہ سنسرشپ ہے، پاکستان میں ہتک عزت کے قانون میں ترمیم کی گئی مگر کوئی فرق نہیں پڑا، پاکستان میں ہتک عزت کا کوئی کیس انجام تک پہنچتے ہوئے نہیں نظر آیا،مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کی تشریح کرنا بہت اہم ہے پوری دنیا میں اس پر بات ہورہی ہے۔ مظہر عباس نے کہا کہ پاکستان میں پچھلے کئی سال سے میڈیا پر غیراعلانیہ سنسرشپ ہے، میڈیا کو کہا جاتا ہے کہ آپ فلاں کا نام نہیں لے سکتے یا فلاں کی تقریر نہیں دکھاسکتے، حکومت یہ بتادے کہ ایسی پابندی کس قانون کے تحت آتی ہیں ، اخبار میں کوئی غلط خبر چھپتی ہے تو ایڈیٹر ذمہ داری لیتا ہے نیوز لیکس اس کی بڑی مثال ہے ، ایک انگریزی اخبار میں خبر چھپی اس پر بڑا ردعمل آیا جس کی ایڈیٹر نے ذمہ داری قبول کی، اخبار کیخلاف قانونی کارروائی نہیں کی گئی بلکہ اخبار کی تقسیم پر پابندی لگادی گئی، کسی چینل کو پیمرا قانون کے تحت آف ایئر نہیں کیا جاتا ہے، 3نومبر 2007ء کو چیئرمین پیمرا کو پتا ہی نہیں تھا کہ ایمرجنسی کے تحت چینلز آف ایئر کردیئے گئے ہیں،سرکاری ٹی وی اور سرکاری ریڈیو پیمرا کے تحت نہیں آتے، سرکاری ٹی وی اور سرکاری ریڈیو پر جو ڈس انفارمیشن، مس انفارمیشن یا فیک نیوز چلتی ہے اس کا احتساب کہاں ہوگا، اعزاز سید کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 19میں پرابلم ہے جس کے تحت فوج اور عدلیہ سے متعلق بات کرنے پر پابندی ہے ، بہت سے صحافی مہم چلارہے ہیں کہ حکومت اس قانون کے ذریعہ میڈیا کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے، یہ صحافی سچ بتائیں کیا ہمارے اخبارات اور میڈیا چینلز کنٹرول میں نہیں ہیں، میڈیا ڈس انفارمیشن میں ملوث ہے، 2011ء میں ریاستی اداروں نے ایک خاص سیاسی پارٹی کو لانچ کیا تو ٹی وی چینلز کو کہا گیا کہ فلاں لیڈر کی تقریر تمام چینلز پر لائیو دکھائی جائے گی۔
میڈیا پر کئی سال سے غیراعلانیہ سنسرشپ عائد۔۔
Facebook Comments