تحریر: خرم علی راؤ
ایک مشہور شعر تھوڑے سے تصرف کے ساتھ ً بربادی گلشن کے لئے بس ایک ہی الو کافی ہے، ہر شاخ پہ الو بیٹھاہے انجام گلستاں کیا ہوگا، یوں تو اس شعر کے تحت بہت سارے موضوعات پر کلام کیا اور لکھا جا سکتا ہے مگر زیر نظر تحریر گلشن میں وارد شدہ ایک نسبتاً نئے الو کا تذکرہ ہے اور وہ ہے ہمارا پیارا راج دلارا اردو الیکٹرانک میڈیا، اس میڈیا کیلئے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ وہ آیا اس نے دیکھا اور فتح کرلیا۔ فتح تو بھیا واقعی کرلیا مگر ان فتوحات کے نشہ ء بلاخیز میں ہمارا میڈیااردو زبان پر جس بری طرح مہربان ہوا س کے بارے میں بقول رئیس امروہی مرحوم یہی کہا جاسکتا ہے ، ا ردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔۔
زبان اور وہ بھی اردو جیسی خوبصورت و مرصع، مقفیٰ ومجلیٰ، تمکین و تاثیر سے بھرپور الفاظ کا غیر محدود خزانہ رکھنے والی، معجزانہ طور کی لچکدار زبان کا جس طرح ہمارا میڈیا” جسے تو فروغِ اردو کا سب سے بڑا مجاہد ہونا چاہیے تھا” بیڑہ غرق کررہا ہے اس یقیناًہم اس مصرعے سے کما حقہ بیان کر سکتے ہیں کہ ، اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے ۔۔میں کوئی باریک قسم کی غلطیوں کا ذکر نہیں کر رہا ہوں بلکہ یہاں تو مٹھائی کو مٹھیائی اوربھگوڑے کو بگوڑے تو لکھا اور سنا ہوا میری گناہ گارآنکھوں نے خود دیکھا ۔ میں یہ کسی ڈرامے یا تفریحی پروگراموں کی بات نہیں کررہا بلکہ خبروں اور ٹکرِزکا بتا رہا ہوں اور یہ مٹھیائی اور بگوڑے تو دیگ کے صرف دو دانے ہیں پوری دیگ ابھی باقی ہے اور یقین رکھیں کہ بحیثیت پروف ریڈر اور ترجمہ نگار میں اغلاط کی ایک فہرست چینلز کے ناموں کے ساتھ مرتب کر سکتا ہوں۔ کئی محترم ادباء اور فضلاء نے میڈیا کی اس جانب توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی مگر اپنا سا منہ لے کر رہ گئے اور مجال ہے جو ہمارے میڈیائی اردو دانوں کے کانوں پر کوئی جوں بھی رینگی ہو۔
الحمداللہ ہمارے چینلز ساری دنیا میں دیکھے جاتے ہیں اور زبان کسی بھی تہذیب و ثقافت کا سب سے بڑا مظہر ہوتی ہے تو جب ہم اس طرح کی بگڑی ہوئی زبان، غلط تلفظ شدہ الفاظ و آواز، انگریزی الفاظ کی ناروا آمیزش اورلفظوں کے بے محل استعمال پر مبنی اپنی زبان دنیا کے سامنے پیش کریں گے تو ہماری تہذیب و ثقافت کا کیا تاثر مرتب ہوگا یہ ایک مجھ جیسا اوسط عقل کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے۔
یہ تو عوام کا حال ہے اب تو خواص بھی صاحبِ علم ،صا حب قلم کی جگہ ا ہلِ علم، اہلِ قلم، ناراضی کی جگہ ناراضگی ہراساں کو حراساں لکھنے پڑھنے میں کوئی خاص احتیاط نہیں کر تے۔ محترم شکیل عادل زادہ صاحب نے ایک حالیہ ملاقات میں اردو املا کے بارے میں چند بیحد کارآمد سی باتیں مجھ طالبعلم کو بتائی تھیں،مختصرا ایک عرض کردوں کہ” جن اردو الفاظ میں ڈ اور ھ آتے ہوں انکا اختتام الف پر ہونا درست اور ہ پر ہونا اور ایسا لکھنا غلط ہوگا،مثلا ڈھاکا درست ہے اور ڈھاکہ غلط، ایسی اور بھی بہت سی باتیں ہیں۔ ایک کثیر الاشاعت روزنامے کی 18 نومبر کی اشاعت میں ایک ہی خبر میں ہراساں اور حراساں دونوں موجود ہیں شاید اس لئے کہ قاری کو جو پسند آئے اسے منتخب کرلے، اور بھی اسی طرح کی اغلاط کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔
بلاشبہ اردو الیکٹرانک میڈیا کا اثر ہمہ گیر ہے ، یہ کم خواندہ بلکہ ناخواندہ افراد میں بھی شعوری و عقلی بیداری کے اعتبار سے بہتری پیدا کر رہا ہے، ملک کے دور دراز علاقوں میں بھی چینلز دیکھے جاتے ہیں اور عوام تک بہت سی ایسی چیزیں باآسانی پہنچ جاتی ہیں جنکا ہم کچھ عرصے پہلے تک تصور بھی نہیں کر سکتے تھے، پر بگاڑِ زبان اور لکھنے بولنے میں بے احتیاطی سے زبان میں جوجھول پیدا ہو رہا ہے ، اس پر کیا نہ صرف غور و فکرکی بلکہ عملی اقدامات کرنے کی اشد ضرورت نہیں ہے ؟۔ ہمارے پڑوس میں سنسکرت جیسی مردہ زبان کو زندہ کرنے اور اس کی تر ویج و اشاعت میں ان کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا جتنی کوششیں کررہا ہے وہ سب کے سامنے ہی ہیں اور سنسکرت جیسی مردہ ہوچکی زبان کو زندہ کرنے میں ان کی محنت قابلِ داد ہے اور ان کی کو ششیں اس حد تک کامیاب بھی ہوتی نظرآرہی ہیں کہ ہمارے یہاں بھی انکے ڈراموں ،شوز اور فلموں کے اثر سے روز مرہ کی بول چال میں ہندی الفاظ کا استعمال نظر آنے اور سنائی دینے لگا ہے۔۔ پھر فروغِ اردو کے لئے ہمارے میڈیا کی جانب سے کوشش کیوں نہیں کی جاتی؟
اب حل کیا ہو؟ یہ کوئی مشکل نہیں، جس طرح پی ٹی وی پر ماہر اصلاحِ زبان اور چیف اسکرپٹ ایڈیٹر ہوا کرتے تھے اورشاید اب بھی ہوتے ہوں ،اسی طرح ہر ہر چینل جہاں دوسرے شعبہ جات میں دل کھول کر اخراجات کر رہے ہیں،بجٹ مختص کر رہے ہیں اسی طرح اصلاح زبان و بیان کے لئے بھی ماہرین کو ملازمت دے سکتے ہیں اور ان ماہرین کی تنخواہیں چینلز کے دوسرے اخراجات کے مقابلے میں اونٹ کے منہ میں زیرہ کی مثل ہوں گی، مگر اردو کی خدمت کے اعتبار سے نہ صرف یہ ایک بہترین کوشش وکاوش ہوگی بلکہ کسی حد تک قومی زبان کا کچھ قرض بھی اتارا جا سکے گا۔ یا پھر زبان و ادب کے ماہرین کی مشاورت سے کوئی اور بہتر لائحہ عمل بھی ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ہمارے میڈیا کو کم از کم اردو کی حد تک تو فیض صاحب کے اس شعر کی عملی تفسیر ہونا چاہیئے ً مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے،، وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے ً بلاشبہ یہ یعنی درست زبان کی ترویج و اشاعت کوئی واجب قرض تو نہیں ہے مگر ملک اور زبان سے محبت کے اعتبار سے ایک چھوٹا موٹا فرض ضرورہے، تو گزارش ہے کہ ریٹنگ کے نشے سے ذرا باہر آئیے اور کچھ توجہ ادھر بھی دیجئے۔( خرم علی راؤ )