تحریر: خورشید ندیم۔۔
میڈیا کیا سماجی تبدیلی کا فورم بن سکتا ہے؟اپنی محدودیت کو سامنے رکھتے ہوئے‘میں اس جملے میں ‘میڈیا‘ کے بجائے ‘کالم‘ لکھنا چاہتا تھا۔پھر مجھے خیال ہوا کہ کالم اور اخبار کا اپنا وجودہی اس سماجی تبدیلی کی زد میں ہے۔اس’تبدیلی‘ نے گزشتہ ماہ و سال میں جو چھلانگ لگائی ہے‘وہ عشق کی اُس جست سے کم نہیں جس کے بارے میں اقبالؔ نے فرمایا تھا کہ ‘عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام‘۔زمین و آسمان کیا‘ یہ زمان و مکان کی اکثر معلوم جہتوں سے آگے نکل چکی۔اخبار‘ کہتے ہیں کہ بہت جلد قصہ پارینہ ہو گا۔کالم کے مزاج کے لیے نئی دنیا کتنی سازگار ہے‘ اس کا ابھی تعین ہو نا ہے۔اس لیے میں نے میڈیا کی بات کی کہ شاید اس میں کچھ دن مزید جی لینے کی سکت ہو۔
میڈیااصلاًکیا ہے؟ایک کاروباری ادارہ یا سماجی تبدیلی کا انجن؟ اس کا جواب ہے: کاروباری ادارہ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے خود ہی اپنی بقا کا سامان کرنا ہے۔بقا کی جبلت کے اپنے تقاضے ہیں۔اس میں بالعموم رحم کے لیے کم ہی جگہ ہو تی ہے۔رحم وہیں ہوتا ہے جہاں بقا عالمِ اسباب سے ماورا ہو یا پھر اسباب ‘اس حدتک گرفت میں ہوں کہ بقا کوکوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔
میڈیا کو کوئی ایسی سہولت میسر نہیں۔ اگر اس نے اپنی بقا کا سامان خود تلاش کرنا ہے توپھر وہ سود وزیاں کے پیمانے سے سوچے گا۔یہ پیمانہ اسے جنسِ بازار بنا دیتا ہے۔بازار میں زندہ رہنے کے آداب کا تعین‘ بازار خود کرتا ہے۔اسی لیے کہتے ہیں کہ روپے کی قدر کا تعین حکومت نہیں ‘بازار کرے گا۔رائج الوقت معیشت کا اصول یہی ہے جو آزاد منڈی کے تصور پر کھڑی ہے۔
اگر معاشی نفع ونقصان میڈیا کے قیام کی بنیاد ہے تو پھراس کیلئے یہ سوال بہت اہمیت رکھتا ہے کہ لوگ کیا پڑھنا‘سننا یا دیکھنا چاہتے ہیں؟ اگر اس نے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اپنی ترجیحات کا تعین کیا ہے تو اس کے لیے حسن و قبح کا معیار وہ نہیں ہو سکتا جو مذہب یا کوئی نظامِ اقدار طے کرتا ہے۔اس لیے وہ اصلاً سماجی اصلاح یا تبدیلی کا فورم نہیں ہو سکتا۔ ایک آدھ میڈیا ہاؤس‘ممکن ہے‘انفرادی سطح پر کوئی ایسی کوشش کرے مگر وہ جزوی ہوگی۔جیسے ہفتے میں ایک گھنٹہ۔ اس کا غالب رجحان وہی ہوگا جو مارکیٹ کا ہے۔
سرکاری میڈیا کے پاس یہ گنجائش ہوتی ہے کہ وہ اپنے اہداف مارکیٹ کے بجائے‘ریاستی پالیسی کے تابع رکھے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی بقا کے لیے‘اُس کا انحصار مارکیٹ پر نہیں‘ریاست پر ہے جو اسے وسائل فراہم کرتی ہے۔’وائس آف امریکہ‘ مثال کے طور پر مارکیٹ کا پابند نہیں مگر سی این این ہے۔اس لیے دونوں کی ترجیحات ایک نہیں ہو سکتیں۔اسی طرح پی ٹی وی اور نجی ٹی وی چینلز کی ترجیحات میں بھی ہم آہنگی نہیں ہو گی۔اب تو ریاست بھی ایک حد تک ہی ان اداروں کو وسائل مہیا کر سکتی ہے۔اس لیے ان کے لیے مارکیٹ کی طرف دیکھنا ضروری ہو گیا ہے۔
میڈیا میں جو مذہبی پروگرام ہم دیکھتے ہیں‘ان کا تعلق مذہب سے نہیں‘عوام کے مذہبی ذوق سے ہے۔اگر کوئی مذہبی راہنما عوام میں مقبول ہے تو ہر چینل اس کی طرف لپکے گا۔عوام میں نعت گوئی عام ہے تو ٹی وی سکرین پربھی یہی کچھ دکھائی دے گا۔ان پروگراموں کی بنیاد یہ نہیں ہو تی کہ مذہب کا مطالبہ کیا ہے اور لوگوں کو مذہب کے عنوان سے کیا بتانا چاہیے۔اس کی بنیاد یہ ہے کہ عوام کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔اس لیے مذہبی پروگراموں کا فیصلہ بھی مارکیٹ ہی کر تی ہے۔ظاہر ہے اس کے بعد میڈیا‘اصلاحِ مذہب میں کوئی کردارادا نہیں کر سکتا۔
اصلاحِ مذہب‘سماجی اصلاح کا ایک باب ہے۔دوسرے شعبوں کو بھی اس پر قیاس کرنا چاہیے۔اسی لیے میری رائے ہے کہ میڈیا ‘سماجی تبدیلی کا انجن نہیں بن سکتا۔ اس کا اطلاق اگر آج کے حالات پر کریں جب اخبار زندہ ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ کالم وہ فورم نہیں ہے جسے سماجی تبدیلی کے لیے وقف کیا جا سکے۔ کالم نگاری ان مقاصد سے ہم آہنگ رہے گی جو پرنٹ میڈیا اور اخبار کے عمومی مقاصد ہیں۔یہ ہم جانتے ہیں کہ ہماری صحافت سیاست کی گرد گھومتی ہے۔
بطور کالم نگار میرے تجربات کا حاصل بھی یہی ہے۔کچھ قارئین ہیں جن کو سماجی مسائل سے دلچسپی ہوتی ہے۔اکثریت مگر سیاست کے لیے کالم پڑھتی ہے۔اس کا اندازہ کالم پرآنے والے ردِ عمل سے ہوتا ہے۔ یہ ردِ عمل ہی دراصل کالم کے موضوعات کا تعین کر تا ہے۔اس سے بے نیاز ہو کر کالم کا زندہ رہنا مشکل ہوتا ہے۔کوئی کالم نگار اگر استقامت دکھانے پر آمادہ ہو جائے تو اخبار اس کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ اس لیے سماجی موضوعات پر مستقل نہیں لکھا جا سکتا اور تسلسل کسی تبدیلی کی مہم کیلئے لازم ہے۔
ترقی یافتہ دنیا میں گمان یہ ہے کہ عوام کی شعوری سطح قدرے بہتر ہے۔اس کی و جہ آزادیٔ رائے اور تعلیم ہے۔اس لیے وہاں کا میڈیا ان موضوعات کوبھی جگہ دیتا ہے جن کا تعلق سماجی اصلاح سے ہے۔ وہاں یہ موضوعات مارکیٹ کے معیار پر پورا اترتے ہیں۔ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ میڈیا کے پرائم ٹائم پر ڈراموں کا قبضہ ہے یا سیاسی پروگراموں کا۔اس کا کوئی امکان نہیں کہ اہم سماجی موضوعات کو یہ وقت دیا جا سکے۔
کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ سماجی تبدیلی کے لیے سوشل میڈیا ہی واحد فورم ہے؟میں طویل عرصہ اس سے گریزاں رہا لیکن اب لگتا ہے کہ سماجی تبدیلی ہانک کر اِس جانب لا رہی ہے۔سوشل میڈیا میں بھی اگر چہ غالب رجحان وہی ہے جو عام میڈیا کا ہے مگراس کو کاروبار بنائے بغیر کوئی چاہے تو سماجی تبدیلی کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔اگر آپ اس سے پیسے کمانا چاہتے ہیں تو پھر آپ کے موضوعات وہی ہوں گے جو عوام کے مزاج سے ہم آہنگ ہوں۔ تاہم اگر آپ کا ذریعۂ معاش کوئی اور ہے یا آپ کو کچھ دست و بازو ایسے میسر آگئے ہیں جو اس کام کے لیے وسائل فراہم کر سکتے ہیں تو پھر کم سرمایہ لگا کر ‘سوشل میڈیا کو سماجی تبدیلی کا انجن بنا یا جا سکتا ہے۔
انگریزی میں بے شمار وی لاگر ہیں جو فلسفہ‘سائنس اور مذہب پر انتہائی سنجیدہ بحث کر رہے ہیں۔بھارت میں بھی ہیں۔ایک بھارتی سکالر ڈاکٹر ایچ ایس سنہا نے مغربی فلاسفہ پر بہت عام فہم اور شاندار سیریز کی ہے جو یو ٹیوب پر موجود ہے۔پاکستان میں بھی بعض لوگ کوشش کر رہے ہیں مگر بہت کم۔استادِ گرامی جاوید احمد صاحب غامدی نے سوشل میڈیا کو اپنے علم اور سنجیدگی سے وقار بخشا ہے۔تیمور رحمن صاحب نے بھی اشتراکیت کے پس منظر میں سنجیدہ پروگرام کیے ہیں۔ پاکستان میں شاید سنجیدہ مخاطبین کی کمی ہے‘اس لیے مذہب ہو یا سماج‘ سوشل میڈیا پر بھی سطحی لوگ ہی دکھائی اور سنائی دیتے ہیں۔
سماجی مصلحین کے پاس اب اس کے سواکوئی راستہ نہیں کہ وہ سوشل میڈیا کا رُخ کریں۔کیا اچھا ہو کہ صاحبانِ وسائل بھی اس اہمیت کو جانیں اور اس طرح کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ٹی وی چینل پر اُٹھنے والے اخراجات کے عشرِعشیر سے‘سماجی تبدیلی کیلئے مؤثر آواز اٹھائی جا سکتی ہے۔(بشکریہ دنیانیوز)