taqatwar vazir ne video dekhi hia | Azaz Syed ka dawa

میڈیا اور سچائی کا بلیک آؤٹ۔۔

تحریر: اعزاز سید۔۔

صحافت میں آئے دو دہائیاں بیت گئیں۔ جس شخص سے ملتا ہوں اس کا دعویٰ یہی ہوتا ہے، ’’میں ذرا مختلف آدمی ہوں، سیدھی، سچی اور کھری بات کرتا ہوں چاہے کسی کو کتنی ہی بری کیوں نہ لگے‘‘ لیکن ذرا کریدیں یا تحقیق کریں تو حقیقت دعوے سے مختلف نکلتی ہے۔ جدید دور میں میڈیا سچ کا علمبردار بنا ہوا ہے۔ آپ کسی ٹی وی اینکر یا سوشل میڈیا پر متحرک پہلوان کو دیکھیں، سب کا دعویٰ ’’سچ‘‘ ہے۔ ملک میں سچ کا علمبردار میڈیا/ سوشل میڈیا ہے مگر سچ نہیں۔ وجہ ایک تو یہ ہے کہ مرکزی دھارے کے اخبارات و ٹی وی چینلز پر کڑی نگرانی ہے اگر وہ غلطی سے حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کے کسی ناپسندیدہ موضوع پر بات کریں تو انہیں اشتہارات یا کیبل پر نشریات کی بندش سے اس ’’سچ‘‘ کا فوری خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ لہٰذا میڈیا کے ادارے سچ اتنا ہی بولتے ہیں جتنا ہضم کر سکیں۔ ایک خاص حد سے آگے سچ کو پسند کیا جاتا ہے نہ شائع و نشر۔ ہاں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ وہی سچ ہے جو دراصل سچ نہیں بلکہ سچ کے کپڑوں میں ملبوس جھوٹ ہے۔

ہمارے ہاں کچھ سچی خبریں ایسی آتی ہیں جسے میڈیا نظر انداز کردیتا ہے۔ یہ حکومت یا اسٹیبلشمنٹ سے متعلق طاقتور شخصیات، اداروں کی بھی ہوتی ہیں اور کچھ طاقتور پراپرٹی و بزنس ٹائیکون بھی اسی استثنیٰ سے فائدہ اٹھاتے ہیں لہٰذا عوام کو پورا سچ پتہ نہیں چلتا کیونکہ میڈیا اول تو خبر کا مکمل بلیک آوٹ کردیتا ہے یا اس خبر کو ایسے ملفوف انداز میں نشر کرتا ہے کہ اس کے معنی مرجاتے ہیں۔ عام آدمی کو پورا سچ پتہ نہیں چلتا اسی لئے وہ بعض شخصیات یا اداروں کی اندھی محبت کا شکار ہو جاتا ہے اور کبھی کبھار تو اس محبت میں مرنے مارنے پر بھی اتر آتا ہے۔ اس سارے عمل میں قصور یقیناً آدھا سچ نشر اور شائع کرنے والوں کا ہے۔ سچ کی مارکیٹ میں قلت کو سوشل میڈیا پر مختلف افراد اپنے اپنے انداز میں ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر ان میں بھی اکثریت یا تو جمہوریت کش طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی نمائندگی کرتی ہے یا پھر طاقت کے حصول کے لئے کوشاں مختلف سیاسی جماعتوں کی۔ سچ کا دعویٰ تو کیا جاتا ہے مگر عملی طور پر اپنے اپنے سرکاری یا نجی آقائوں کا بیانیہ دیا جاتا ہے نہلے پے دہلا یہ کہ سچ کے پائوں کو معاشرے اور مذہب کی بیڑیاں الگ سے پہنائی جاتی ہیں۔

جین لیوں گروم کی تخلیق کردہ سچ کی بےبسی دیکھنا ہو تو صرف اسلام آباد ہائَیکورٹ کے معزول کیے گئے جج جناب جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا سپریم کورٹ میں اپنی برطرفی کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران دیا گیا بیان دیکھ لیں، جو کہیں شائع نہیں ہو سکا۔ زیرحراست ایم این اے علی وزیر کے کیس کی تفصیل یا ان کا موقف دیکھ لیں جو کہیں شائع کرنے کی اجازت نہیں یا پھر کراچی میں ایک نجی ہاوسنگ سوسائٹی کے خلاف احتجاج دیکھ لیں اور پتہ کرنے کی کوشش کریں کہ ان سب معاملات پر خبریں کہاں شائع یا نشر ہوئیں۔ آپ کو پتہ چلے گا کہ اول تو کہیں کچھ بھی شائع یا نشر نہیں ہوا اور اگر ہوا بھی ہے تو اس میں تمام کردار غائب کر دیے گئے ہیں یعنی جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں۔ تو پھر کیا ہم دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہم سچ بول رہے ہیں؟ میرے خیال میں ہم سچ نہیں بول رہے۔

مجھے نہیں پتہ کہ فرانسیسی مصور جین لیوں گروم زندہ ہوتے تو وہ پاکستان جیسے ملک میں سچ کی تازہ صورتحال پر کوئی نئی تخلیق کرتے یا نہیں لیکن مجھے اتنا معلوم ہے کہ پاکستان میں سچ کے کپڑے پہنے جھوٹ تو سرکاری سرپرستی میں میڈیا پر سرعام گھومتا پھررہا ہے لیکن شرمندگی سے چھپے پھرتے ننگے سچ کو زبردستی اغوا کرکے لاپتہ کر دیا گیا ہے۔ پاکستان میں اصل چیلنج تو اغوا کاروں سے سچ کی بحفاظت بازیابی ہے۔(بشکریہ جنگ)

How to write on Imranjunior website
How to write on Imranjunior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں