media or information literacy

میڈیا اور انفارمیشن لٹریسی

تحریر: ڈاکٹر صوفیہ یوسف۔۔

اکیسویں صدی انفارمیشن ٹیکنالوجی اور میڈیا کی صدی ہے۔ اب ہر شخص‘ چاہے وہ بڑے شہر میں رہ رہا ہو یا کسی دور دراز دیہات میں‘ خواندہ ہو یا ناخواندہ‘ بچہ‘ جوان یا بوڑھا ہو‘ سوشل و ڈیجیٹل میڈیا اس کی دسترس میں ہے اور اس دسترس نے اسے ڈیجیٹل شہری بنا دیا ہے۔ وہ انٹر نیٹ‘ سمارٹ فونز‘ کمپیوٹر‘ ٹیبلٹ اور لیپ ٹاپ کے ذریعے پوری دنیا سے جڑا ہوا ہے۔ ہر طرح کی معلومات تک اس کی رسائی ہے۔ معلومات کے اس تیز بہاؤ میں غلط معلومات سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہیں۔ اس ضمن میں سچ و جھوٹ کے درمیان فرق کو جاننے اور خود کو محفوظ رکھنے کے لیے میڈیا اور انفارمیشن لٹریسی (MIL)ایک ضرورت ہے۔ اس کی مددسے تنقیدی سوچ کی مہارت کو فروغ دے کر معلومات کو پھیلانے کے محرکات پر سوال اٹھانے‘ تعصبات کو سمجھنے میں مدد اور ہیرا پھیری سے بچا جا سکتا ہے۔ میڈیا پروڈکشن کا نیا ماحولیاتی نظام تعلیمی منظرنامے اور سکولوں کے نصاب میں اصلاحات کا مطالبہ کرتا ہے۔ آج جب ڈیجیٹل سپیسز میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے‘ ایسے میں ایم آئی ایل بنیادی اور لازمی ضرورت بن گئی ہے۔ اگر ہم اپنے نوجوانوں کی تنقیدی سوچ اور شہری معروضیت کو فروغ دینے کی خواہش رکھتے ہیں تو ان میں غلط خبروں کے بارے میں شعور بیدار کرنا‘ جعلی خبروں کو پھیلانے سے روکنا ہو گا۔ غلط خبریں و معلومات معاشرے کے لیے مضر نتائج کا باعث اور رائے عامہ پر منفی اثر ڈال سکتی ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے حوالے سے لٹریسی کے منصوبوں کے نفاذ‘ اساتذہ کی تربیت‘ سکولوں کے نصاب میں ایک بین الضابطہ نقطۂ نظر کے ذریعے تعلیمی نظام میں اصلاحات متعارف کروائی جانی چاہیے۔ ڈیجیٹل اور پرنٹ وسائل تک رسائی‘ تجزیہ‘ پیغامات کی تعمیر نو‘ پیغامات کی کراس چیکنگ‘ تشخص‘ بامقصد مواد کی ترقی و تعامل کے بارے میں معلومات کی فراہمی اہم ہے۔

میڈیا اور انفارمیشن لٹریسی درحقیقت میڈیا اور معلومات تک موثر طریقے سے رسائی‘ تشخص اور تخلیق کا نام ہے۔ ذمہ دارانہ اخلاقی میڈیا کی تخلیق کی حوصلہ افزائی درستگی‘ انصاف پسندی اور دانشورانہ املاک کے احترام پر زور دیتی ہے۔ انفارمیشن لٹریسی کے ذریعے معاشرے میں متنوع نقطۂ نظر کی حوصلہ افزائی‘ ثقافتی تفہیم اور احترام کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کا دنیا بھر کی ثقافتوں پر اثر رہا ہے اور جدید معاشروں میں یہ اب ایک بااثر قوت ہے‘ اس لیے میڈیا کے منفی اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے شہریوں کو با اختیار بنانا پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو گیا ہے۔ ایم آئی ایل مہارتوں اور قابلیت کا ایک ایسا مجموعہ ہے جو لوگوں کو معلومات اور میڈیا کو موثر طریقے سے استعمال کرنے کے قابل بناتا ہے۔ معاشرے میں فعال شہریت کیلئے یہ ایک لازمی ضرورت ہے۔ میڈیا اور انفارمیشن خواندہ لوگ زیادہ ذمہ داری سے میڈیا مواد تک رسائی‘ استعمال‘ تجزیہ‘ تخلیق اور اشتراک کر سکتے ہیں۔ میڈیا اور انفارمیشن لٹریسی کے ذریعے معیاری تعلیم‘ فعال شہریت کے لیے اہم معلومات اور ڈیجیٹل صلاحیتوں کے حصول سے شہریوں کو میڈیا (آن لائن اور آف لا ئن) پر دقیا نوسی تصورات‘ شدت پسندی‘ نفرت اور نسلی امتیاز کا پتہ لگانے اور ان کا مقابلہ کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ لہٰذا میڈیا اور انفارمیشن لٹریسی کے فروغ سے معاشروں کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ مغربی ممالک میں ایم آئی ایل کو باقاعدہ تعلیمی نصاب میں شامل کیا گیا ہے تاکہ یقینی بنایا جا سکے کہ بچوں میں میڈیا پیغامات کو ڈی کوڈ کرنے اور ڈیجیٹل میڈیا کو ابتدائی اور مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کی اہلیت پیدا کی جا سکے۔ ان ممالک میں سکول‘ کالج اور جامعات کی سطح کے نصابات میں ایم آئی ایل کو بطور مضمون شامل کرنے کے علاوہ میڈیا اور انفارمیشن لٹریسی کے متعدد منصوبوں کے ذریعے عام شہریوں کو بہتر انداز میں ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کو استعمال کرنے کی آگہی دی جا رہی ہے۔

21ویں صدی کی ابتدائی دو دہائیوں میں ہی میڈیا اور انفارمیشن لٹریسی اہم صورت اختیار کر چکی ہے۔ ڈیجیٹل دور نے ہر ایک کو میڈیا صارف میں تبدیل کر دیا ہے۔ صارفین کو دستیاب میڈیا کی انتہائی وسیع رینج کا استعمال کرنے‘ عکاسی کرنے‘ تنقیدی فیصلہ کرنے کی تعلیم دینے کا بڑا چیلنج پاکستان سمیت پوری ترقی پذیر دنیا کو درپیش ہے۔ پاکستان میں 87ملین سے زیادہ لوگ انٹرنیٹ اور 73ملین لوگ سمارٹ فون استعمال کرتے ہیں۔ صارفین کو نہ صرف روایتی میڈیا کو بہتر طور پر پرکھنا آنا چاہیے بلکہ دستیاب نئی ٹیکنالوجی کے حوالے سے ضروری معلومات کا ہونا لازمی ہے تاکہ معلومات کی منتقلی کے مکمل طور پر نئے طریقوں اور نئی اپیلی کیشنز کے استعمال سے مستفید ہوا جا سکے۔ در حقیقت میڈیا اور انفارمیشن لٹریسی ایک ایسی وسیع اصطلاح ہے جو تین جہتوں میڈیا لٹریسی‘ انفارمیشن لٹریسی اور ڈیجیٹل لٹریسی کا احاطہ کرتی ہے۔ سکول وہ جگہ ہے جہاں مستقبل قریب کے شہریوں کی تربیت کی جاتی ہے‘ اس لیے سکولوں میں ڈیجیٹل میڈیا کو سمجھنے‘ تنقید کرنے اور معلومات تخلیق کرنے کی تربیت دینا ضروری ہے تاکہ ڈیجیٹل شہری اپنی کمیونٹی میں بامعنی شرکت کر سکیں۔ جب میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم کو تفریح کیلئے استعمال کرنے کی بات ہو تو بچوں اور نوجوانوں کے پاس اس کی معلومات ہوتی ہیں لیکن ان میں سے کتنے بچے معنی خیز جوابات تلاش کرنے‘ شواہد پر مبنی تحقیق کرنے‘ بحث چھیڑنے یا خبروں کی پیروی کرنے کے لیے وہی آلات استعمال کر سکتے ہیں؟ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر بچوں اور نوجوانوں کو ہر قسم کے مواد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں در حقیقت یہ جاننے کے قابل ہونا چاہیے کہ کیا قیمتی ہے اور کیا نہیں‘ کیا اصلی ہے اور کیا نہیں۔ بچوں کی زندگی کے ابتدائی سال زندگی بھر کی خواندگی اور سیکھنے کے لیے بنیادیں فراہم کرتے ہیں۔ یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ ابتدائی تعلیم کی پالیسی اور نصاب میں ایم آئی ایل کو شامل کیا جائے تاکہ کم عمر شہریوں کو اس مہارت سے آراستہ کیا جا سکے۔ بچے آن لائن گیمز کھیل رہے ہوں یا لامتناہی ویڈیوز دیکھ رہے ہوں‘ اس دوران کس طرح کے مسائل سے وہ دوچار ہو سکتے ہیں‘ اس کے بارے میں اگر وہ آگاہ ہوں تو بہتر انداز میں ان مسائل کو حل اور والدین و اساتذہ سے ان کے متعلق بات کر سکیں گے اور خراب لوگوں کے ہاتھوں استحصال سے محفوظ رہیں گے۔ میڈیا اور انفارمیشن لٹریسی آن لائن و آف لائن معلومات کا تجزیہ‘ تنقیدی سوچ‘ اظہارِ خیال‘ تخلیقی صلاحیتوں کے لیے ضروری ہنر فراہم کرتی اور شہریوں کو پرنٹ سے لے کر ریڈیو تک‘ ویڈیوز سے لے کر انٹر نیٹ تک‘ مختلف فارمیٹس میں میڈیا اور معلومات تک رسائی‘ تجزیہ‘ تخلیق و استعمال کرنے کے قابل بناتی ہے۔

سوشل میڈیا پر کوئی بھی پیغام ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں وائرل ہو سکتا ہے اور جو غلط ہے اسے اس وقت تک دوہرایا جا سکتا ہے جب تک لوگ یقین نہ کر لیں کہ یہ سچ ہے۔ پھیلاؤ کی رفتار کے ساتھ مناسب ایم آئی ایل مہارتوں کے حامل افراد یہ جان سکیں گے کہ کیا سچ ہے اور وہ آن لائن Flotsamکے درمیان سوالات پوچھنے اور جوابات تلاش کرنے کے قابل ہوں گے۔ سرچ انجنوں نے مواد کو آن لائن تلاش کرنے کے طریقوں میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ ڈیجیٹل مہارتوں میں یہ سمجھنے کی صلاحیت شامل ہونی چاہیے کہ Algorithmہمیشہ غیرجانبدار نہیں ہو سکتے۔ سرچ انجنوں کا سیاسی اور دیگر وجوہات کی بنا پر جوڑ توڑ کیا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم رائے عامہ پر اثر انداز ہوتے ہیں‘ سیاسی گفتگو کو تشکیل دیتے ہیں اور یہاں تک کے ذہنی صحت پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان پلیٹ فارمز کے پیچھے الگورتھم مبہم اور ان کے اثرات گہرے ہو سکتے ہیں۔ میڈیا اور انفارمیشن لٹریسی ہمیں ڈیجیٹل و سوشل میڈیا پر چلنے والی حرکیات کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ ملکی تعلیمی نظام کو ڈیجیٹل دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھالے بغیر ڈیجیٹل دنیا کا مقابلہ اور اپنی معاشرتی اقدار کو محفوظ رکھنا ناممکن ہے۔(بشکریہ دنیانیوز)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں