media or hukumraano ki zimme dari

میڈیا اور حکمرانوں کی ذمہ داری۔۔

تحریر: امبرزیدی۔۔

ہمارے معاشرے کو آج مختلف بیماریوں نے جکڑا ہوا ہے خواہ ہو ذہنی ہوں یا جسمانی ہر شخص کسی نہ کسی، کوئی نہ کوئی بیماری میں مبتلا ہے اوراس کا نظارہ ہمیں ہر طرف دکھائی دے رہا ہے۔ اخلاقی اعتبار سے ہم بحیثیت قوم نہایت پستی میں جا چکے ہیں، کوئی کسی کی کوئی خطا معاف کرنے کو تیار نہیں، کسی کو اجازت نہیں کہ وہ اپنے حق میں صفائی پیش کرسکے، اگر کسی سے معمولی غلطی ہوجائے تو ہمارے ہاتھ اٹھ جاتے ہیں، درگزر کرنا تو جیسے ختم ہی ہوگیا ہے۔

کہتے ہیں زر، زمین اور زن یہ تین چیزیں ایسی ہیں جو فتنا و فساد کا سبب بنتی ہیں لیکن اگر آج ہم اس میں “سوشل میڈیا” کا بھی اضافہ کردیں تو شاید غلط نہ ہو۔ گزشتہ کئی دنوں سے ایلکٹرانک میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا تک ایک موضوع زیر بحث ہے جو کہ سوشل میڈیا کی ایپ “ٹک ٹوک” سے متعلق ہے ۔ اس ایپ سے دو خواتین کو خوب شہرت حاصل ہوئی اور وہ اتنی مقبول ہوئیں کہ حکومت وقت کے اہم وزرا تو کیا وزیر اعظم پاکستان تک جا پہنچی ہر طرف ایک ہی سوال کیا جانے لگا کہ یہ خواتین ہیں کون؟ ان کی رسائی حکومت وقت تک کیسے ممکن ہے؟ لیکن اسی اثنا میں ان خواتین کی جانب سے حکومت وقت کے وزرا کے خیلاف انکشافات ہونا شروع ہوگئے،جس پر معاملہ سنگین ہوگیا اور ٹی وی ٹاک شوز سمیت سوشل میڈیا پر بھی بحث چھڑ گئی۔

اس سے متعلق مشہور و معروف اینکر مبشر لقمان نے بھی اپنے یو ٹیوب چینل پر پروگرام کیا اور کچھ انکشافات وزیر سائینس اور ٹیکنالوجی فواد چوہدری سے بھی متعلق ہوئے، اس کے بعد ان دونوں کے درمیان ایک شادی کی تقریب کے دوران بدمزگی ہوئی جس سے تقریب تو خراب ہوئی لیکن بات ہاتھ اٹھانے تک جا پہنچی اور فواد چوہدری نے اینکرر مبشر لقمان کو تھپڑ مار دیا۔ اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ ہمیشہ اختلاف کا اظہار اسی طرح کیا جائے، ہر شخص کی اپنی عزت ہے جس کا احترام کرنا لازم ہے، یہ واقعہ نیا نہیں اس سے قبل ایک اور صحافی بھی فواد صاحب کے تھپڑ کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ہم ہمیشہ حکمرانوں کو صبر اور برداشت کی تلقین کرتے ہیں کرنا بھی چاہیے، فواد چوہدری صاحب کا یہ عمل کسی بھی طرح جسٹیفائڈ نہیں لیکن میڈیا کو بھی ذمہ داری کو مظاہرہ کرنا چاہئیے۔ بعض اوقات میڈیا خود بھی کچھ ایسی باتیں کرجاتا ہے جس سے ایک منفی تاثر جاتا ہے۔ ہم آئے دن معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت کا رونا روتے رہتے ہیں لیکن ایک عام آدمی سے زیادہ وہ افراد جو عوام کے نمائندے ہوں اور ملکی معاملات ان کے ہاتھ میں ہوں تو ان پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ برداشت کا مظاہرہ کریں تاکہ اس کا پیغام نچلے طبقے تک پہنچ سکے کیونکہ ہمارا معاشرہ جہاں مہنگائی اور بیروزگاری جیسے سنگین بحران کا شکار ہے وہاں ذہنی بیماریاں ہمیں اندر سے کھوکھلا کررہی ہیں۔ ایک طرف تو ملکی معاملات لیکن یہ سوشل میڈیا بھی کسی وبال سے کم نہیں، اس کو ایجاد مشکلات میں اضافے کے لیے نہیں بلکہ آسانیاں پیدا کرنے کے لیے کیا گیا ہے لیکن یہاں انسان اس کی وجہ سے ذہنی اذیت کا شکار ہوکر خودکشی کررہے ہیں، مرد ہو یا عورت کسی کی عزت محفوظ نہیں رہی۔ سوشل میڈیا کو جس کام کے لیے بنایا گیا ہے اس کام کے لیے استعمال کریں۔ خود کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں تاکہ ہم اس اخلاقیات کی پستی سے تو کم از کم اپنے آپ کو باہر نکال سکیں۔(امبرزیدی)۔۔

How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں