تحریر: کشور ناہید۔۔
درحقیقت 1940کی قرارداد، اساس پاکستان ہے، پچاس سال پہلے ہم یوم پاکستان کو جس طرح مناتے تھے، وہ نقشہ لب و لہجہ اور تاریخ بدل چکی ہے، سقوط مشرقی پاکستان سے پہلے بھی ہم اسی طرح فوجی پریڈ کرتے اور دیکھتے تھے مگر اس وقت شاید اسکرپٹ اور رائٹر لئیق احمد صاحب کے ہوتے تھے، زمانہ بدل گیا اس دفعہ اسکرپٹ اور رائٹر دو فوجی افسر اور دو خواتین فوجی افسر ان کا بیانیہ تھا۔ ہر چند لئیق صاحب بھی فوجیوں کے ساتھ مل کر فضائیہ، بحریہ اور زمینی فوج سے متعلق الفاظ لکھتے تھے۔ ہر چند ہمارے فوجی جوانوں نے شاید اسکرپٹ بھی خو دلکھا تھا اور شاید ریہرسل بھی زیادہ نہیں کی تھی، اس لیے اگر پریڈ کا حوالہ دے رہے تھے وہاں کچھ اور دکھائی دے رہا تھا۔ خیر یہ تو ٹیکنیکل باتیں ہیں جو تشنگی رہی وہ یہ تھی کہ اول تو قرارداد کا متن خود مختار مسعود صاحب نےبڑی محنت سے، مینار پاکستان پر لکھوا یا تھا۔ وہ ضرور دکھانا اور دہرانا چاہیے تھاہر چند کچھ الفاظ کی تبدیلی وقت کےمطابق تھی، سب سے اہم فرو گزاشت یہ تھی کہ مولوی فضل حق کے نام پر اسلام آباد میں سڑک تو ہے مگر نصاب سےلیکر آج کے اسکرپٹ تک میں یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ قرارداد مولوی فضل حق نے پیش کی تھی۔ میاں بشیر احمد نے مشہور زمانہ نظم ’’ ملت کا پاسباںہے محمد علی جناح‘‘ پیش کی تھی، باتیں تو اور بہت سی ہیں مگر 1970 تک پاکستان کی تاریخ کو فراموش کرنے کی زیادتی، ہماری ابھرتی ہوئی بلکہ گزشتہ پچاس سالہ لوگوں کو نہ بتانا! آخر جرمنی بھی تو دو حصوں میں تقسیم ہوا تھا جب تک وہ دو حصے رہے اس وقت تک مشرقی اور مغربی جرمنی لکھا جاتا رہا، ہر چند اب بنگلہ دیش الگ ملک ہی ہے اور ہم سے زیادہ ترقی یافتہ، ملکی معیشت اور آبادی میں ہم سے بہتر ہے، خلاصہ اس سارے بیان کا یہ ہے کہ پرانے محاورے کے انداز میں کہ جس کا کام اسی کوساجے۔ہر چند آرمی میں شفیق الرحمن جیسے مستند لکھنے والے رہے ہیںمگر 23 مارچ کے اسکرپٹ اور بیان کیلئے پروفیشنل شخصیات مناسب رہتی ہیں، اپنے موضوع کو وسعت دیتے ہوئے کہہ رہی ہوں کہ میڈیا کو منظم کرنے کیلئے اسی فیلڈ کی شخصیت چاہیے ہوتی ہے، ہر چند خواجہ شاہد حسین یا اسلم اظہر جیسی نابغہ روزگار شخصیات نہیں پھر بھی قحط نہیں ہے، اب بھی کچھ پڑھے لکھے لوگ زندہ ہیں، ان سے استفادہ کیا جائے تو شاید۔ 23 مارچ کی تقریرمیں بھی صدر پاکستان نے غربت مٹانے کے عزم کا اظہار کیا ۔ مگر میں جب ایم پی اے اور ایم این اے کو حاصل سہولتوں ،جن کو عیاشیاں بھی کہاجاسکتا ہے وہ اگر ماہانہ اعزازیہ سے لے کر سال بھر میں پورے خاندان کو ملنے والی مفت ٹکٹوں اور اخراجات بیان کروں اور ان میں سے کتنے ہیں جو صرف حاضری لگواکر روزینہ لیتے اور کچھ خاموش رہ کر یا پھر نعرے اور بڑھکیں مار کر خود کو اس اعزازیہ اور سہولتیں جس میں رہائش اور اسمبلی کے کیفےٹیریا میں بہت کم قیمت پرملنے والی خوردنی اشیاشامل ہیں،پھر سوال تو بنتا ہے کہ جس کام کیلئے انہیں اعزاز یہ کھانا ملتا ہے، اس میں کیا کمی نہیں کی جاسکتی ہے، اسی طرح 70 فیصد جو لوگ سطح غربت میں ہیں ان کو وظیفے نہیں ہنر سکھائیں اور تربیت کے دوران وظیفہ دیں اور کورس مکمل ہونے پر باقاعدہ ملازمت۔ یہ ساری دنیا میں رائج ہے۔ بی آئی ایس پی جیسے یا پھر فری دستر خوان کبھی غربت ختم نہیں کرسکتے، ہمارے یہاں تو بچے کیا ہر عمر اور جنس کے لوگ مانگتے دکھائی دیتے ہیں، خاص کر افغانی لڑکیوں کو مانگنےاور پھر برگر کھاتے ہم دیکھتے ہیں، خواجہ سراؤں کا قبیلہ فل میک اپ کے ساتھ ہر شام ہاتھ پھیلائے کھڑا ہوتا ہے۔ کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں۔ یہ میں حکومت سے کیوں پوچھ رہی ہوں، یہ تو آئی ایم ایف کے سر پر رکھ کر پھر بجلی اور گیس کے نرخ بڑھا رہے ہیں مگر ہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتاتھے۔
اب چوں کہ رمضان ہے تو پھر بہت اچھا یہ نہیں ہے کہ نعت خواں فلموں گیتوںکی دھنوں پر لکھی ہوئی نعتوں کا ورد کرتے یا پھر تشریح قرآن و حدیث کرتے ہوئے، وہی پرانی تحقیق دہراتے رہیں، اس کے علاوہ آج کل کے نوجوان جو بیرون مل کسے اسلامک اسٹڈیز میں ڈاکٹریٹ کرکے آئے ہیں، ان سے بھی استفادہ کیا جائے تاکہ نہ صرف نوجوان نسل بلکہ پڑھے لکھے قرآن کی تشریح سے نا آشنا اور اراکین اسلام پر تجزیاتی مطالعہ بھی پیش کرسکتے ہیں، گھروں میں میلاد پڑھنے والی خواتین کو بھی شامل کیا جائے کہ رمضان کے فضائل پر گفتگو ہو۔
ایک اور اہم بات ہم ملک میں یگانگت کو فروغ دینے کی بات کرتے ہیں، اب یہ بتائیے، ہمارے ساری زبانوں کے صوفی شعرا نے جو کچھ لکھا ہے اور جو ہمارے فنکاروں نے اور کہیں کہیں قوالوں نے بھی اظہار کا ذریعہ بنایا تو پھر ان مستند قوالوں اور عابدہ پروین جیسے صوفی گائیک نےرمضان کی برکتوں کے فروغ اور ملکی زبانوں کے پیغام محبت اور رسول خدا کی شان میںجو ریکارڈ کیا ہے، اس کو بھی شامل کریں، ہندو شاعروں نے بھی حمدیہ غزلیں لکھی ہیں، مگر ان ساری باتوں کو سمجھنے کے لیے میڈیاکو ذہن رسابھی چاہئے۔
ان موضوعات سے وابستہ بی بی مریم کی بات بہت صائب ہے کہ اسکولوں میں بچوں کو اپنی مادری زبانیں پڑھائی جانی چاہئیں۔اس تصور کی کئی جہتیں ہیں، مثلاً سب سے پہلے تو نصاب بنانے والے عالم ہوں اور متعلقہ زبان کے ماہر ہوں، اسی طرح مادری زبان پڑھانے والے اساتذہ بھی درکار ہوں گے، صرف پختہ ارادہ چاہیے، پھر سب کچھ ہوجاتا ہے، پینتیس برس پہلے جب پنجابی ماسٹر ز شروع کیا گیا تھا تو صوفی صاحب ڈاکٹر نذیر، آصف خان اور شریف کنجاہی بھی تھے، اب تو ان کے پڑھائے ہوئے ڈاکٹریٹ بھی کرچکے ہیں، ان کو اہمیت دیں تو علم اور تہذیب میں توازن قائم ہوسکے گا۔ یہ پیرا گراف لکھتے ہوئے میرے سامنے 23 مارچ کو دیے جانےوالے حسن کارکردگی کے انعامات کی فہرست موجود ہے، پہلی اور آخری خوشی تو یہ ہے کہ شیما کرمانی کے توسط، رقص اور ساڑھی کو ایوان بالا میں عزت ملی پھر یہ کہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اسلام آباد میں 112 زعما کو انعامات دیے گئے جبکہ پنجاب میں 132 ، کے پی میں 59 اور بلوچستان میں 15 انعامات دیے گئے۔ ان میں سب سے مختلف پشاور کے پشاوری چپل ساز نور دین کو بھی حسن کارکردگی کا حقدار ٹھہرایا گیا، اسی طرح دیگر فنون اور نوجوانوں میں موسیقی اور فلم میں ارتقائی طور پر صحیح، کوشش کرنے والوں کو بھی شامل کیا جائے، اتنے ڈھیر سے انعامات دیکھ کر یہ احساس نہیں ہونا چاہئے کہ ہمارے ملک میں پڑھے لکھے لوگ بہت کم ہیں۔(بشکریہ جنگ)۔۔