تحریر: ڈاکٹر مجاہد منصوری
افواج پاکستان کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ’’ قومی میڈیا 6ماہ تک صرف ترقی دکھائے۔‘‘ غالباً ان کا مقصد یہ ہےٹ کہ منتخب حکومت تباہ شدہ ملکی معیشت کی بحالی کے لئے جو پاپڑ بیل رہی ہے اس میں سرمایہ کاروں، تاجروں اور صنعتکاروں کا اعتماد بھی بحال کرنے کے لئے فضا تیار ہو اور ان کا یہ یقین بڑھتا جائے کہ اقتصادی ترقی کا عمل جو سابقہ حکومتوں کے بےپناہ قرضے لینے اور شدید بحران میں بھی کرپشن جیسی دھماچوکڑی اور ملکی خزانے کے پرتعیش استعمال سےجو نقصان پہنچا اسے معمول پر لانے کے لئے اب میڈیا کا تعاون بھی ناگزیر ہوگیا ہے۔ بلاشبہ ترقی اور کمیونیکیشن کا تعلق کرۂِ ارض پر انسانی زندگی کے آغاز سے جڑ گیا تھا۔ یوں ترقی کی تمام تر فلاسفی انسانی معاشرےسے جڑی ہوئی ہے، ایسے کہ انسانی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے ، سوسائٹی میں نئی ضروریات کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔ اس کو بہت آسانی سے ہم یوں سمجھ سکتے ہیں کہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں جو زرعی سائنسدان فصلوں کی زیادہ اور معیاری پیداوار کیلئےتحقیق کرتے ہیں ان کے نتائج کی جب بار بار تصدیق ہوجاتی ہے تو ان نتائج کو کسانوں کے لئے عام کرنا اور انہیں پورے طور پر سمجھنا ، سمجھ کر کاشت کاری میں اختیار کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے، اگر تحقیقی کام فقط علمی و فنی زبان میں لکھے تحقیقی مکالوں میں بند رہ کر ڈی کوڈ ہی نہ ہوتو بڑھتی آبادی غذائی قلت اور دوسری کئی محرومیوں کا شکار ہونے لگے گی۔بعض اختراعات ایسی ہوتی ہیں جن کو ہر عام شہری تک پہنچانا معاشرتی ترقی کیلئے لازم ہوتا ہے جیسے پولیو ڈراپ، 5بیماریوں کے خلاف نومولود بچوں کی ویکسی نیشن شہری شعور بیدار اور بلند کرنے کی ضرورت، ماحولیات کی اہمیت سے آگاہی ، زچہ بچہ کا تحفظ اور صحت سے متعلقہ اختراعات (بشمول جدید طور طریقوں) کی گھر گھر اختیاریت (Adoption)ترقی کی ضمانت بنتا ہے لیکن یہ میڈیا اور دوسرے ذرائع ابلاغ عامہ کی معاونت کے بغیر ممکن ہی نہیں، سو میڈیا(اور اب سوشل میڈیا بھی) بنیادی انسانی ترقی سے بلند درجے کی ترقی تک میں اتنا ہی اہم کردار ادا کرتا ہے جتنا ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ (آراینڈ ڈی)ترقی کے ابلاغ سے اس ناگزیر تعلق کے باعث ماس کمیونی کیشن میں ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن ’’ترقیاتی ابلاغ‘‘ کے نام سے ایک نئی اسپشلائزیشن متعارف ہوگئی جسے اقوام متحدہ کی ترقیاتی ایجنسیوں اور ترقی یافتہ ممالک کے چینج ایجنٹس نے بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ فروغ دیا اور آج یہ ایک مکمل باڈی آف نالج ہے جیسے ایڈور ٹائزنگ، پبلک ریلیشنز اور سائیکلوجیکل وارفئیر وغیرہ۔ اس میں میڈیا بطور ’’پاور فل چینل اور کمیونی کیشن‘‘ کے اپنی پیشہ ورانہ پیغام سازی سے ہٹ کر ان کا معاون ہے۔
آج کے میڈیا منیجرز کو یہ سمجھنا بے حد ضروری ہے کہ میڈیا فقط چند صوبوں میں ہی اپنے معجزاتی ارتقا ا ور آج کی مسلسل فروغ پذیر شکل میں مخصوص مقاصد کا حامل ہے، جو وسیع تر ہونے کے باوجود ایک لحاظ سے محدود بھی ہیں۔ مثلاً اطلاعات کی فراہمی، خبروں پر تبصرے، تجزیے کی شکل میں حالات حاضرہ اور ان سے رائے عامہ کی تشکیل و تبدیلی، تفریح عامہ اور تعلیم عامہ برائے معاشرہ اس کے اب تک کے مقاصد ہیں۔ اس کے علاوہ بھی میڈیا کئی بڑے بڑے کردار اپنے پیشہ ورانہ مقاصد سے ہٹ کر غیر ارادی اور اپنے فرائض سے ہٹ کر پورے کرتا ہے لیکن یہ اس کے پیشہ ورانہ فریم اور ارادوں میں کہیں نہیں آتے۔ پبلک ریلشنز کی سائنس اور اب اس میں نئے نالج کے طور پر ایڈووکیسی کے اطلاق سے میڈیا سے اپنی خواہش کے مطابق بڑے وسیع اور مفید مقاصد کے حصول کی گنجائش ہی نہیں۔کاز کتنا بھی بڑا ہو، سائنسی بات یہ ہے کہ میڈیا کا اپنا رویہ ٹویٹ پر خواہش کے اظہار یا درخواست سے کاز کے حصول کے لئے معاون بن ہی نہیں سکتا اور اس کے لئے میڈیا کے پاس قابل فہم جواز ہے، کیا ہے؟ یہ کالموں میں وضاحت سے زیادہ مکالمے اور ایڈوائزی کا متقاضی ہے۔
بلاشبہ ایسی ریاستیں بھی ہیں جہاں میڈیا اپنی آزادی کی اثاثے کے ساتھ ارتقائی کیفیت میں آیا ہی نہیں اور اس نے جو کردار ادا کیا وہ ریاستی فریم میں رہتے ہوئے ادا کیا ۔یہ مفید بھی ثابت ہوا، بلکہ کئی ممالک میں انقلابی کردار کا حامل ثابت ہوا، لیکن پاکستان میں اس کے برعکس ہوا، وجہ پاکستان کے خمیر میں آزادی ابلاغ شامل ہے، اس کی تعمیر و ترقی میں آزادی صحافت کا ایک کردار ہے اور آج ہم جو’’تابناک پاکستان‘‘ کے سفر پر ہیں اس میں میڈیا کے فروغ اور آزادی کو خارج کیا ہی نہیں جاسکتا، جو مثبت ہے، وہ یقیناً آزاد میڈیا کے کردار سے ہے۔ ہماری ترقی میں میڈیانے اہم کردار ادا کرنا ہے، جس کیلئے خود میڈیا کا فروغ اور پیشہ ورانہ جلا بھی ناگزیر ہے جو ابھی مشکلات اور گنجلک کا شکار ہے۔پاکستان میں میڈیا کا کردار ترقی پذیر دنیا میں مثالی بھی ہے اور اس نے ترقی یافتہ ملک بننے کیلئے اپنے آزاد میڈیا کا تحفظ بھی کرنا ہے اور پروفیشنل گرومنگ بھی،بگاڑ، غیر ذمہ داری اور سطحیت ہمارے میڈیا میں آئی ہے، بڑھی بھی ہے اور یہ معاشرے کے لئے نقصان دہ بھی ہے۔
حاصل بحث یہی ہے کہ ہم نے اپنے فروغ پذیر میڈیا سمت درست کرکے میڈیا لاز اور ضابطہ اخلاق کی روشنی میں، پھر نئی قومی و ریاستی ضروریات کیلئے میڈیا کے تعاون سے مطلوب ا یجنڈے کو میڈیا سے ہی منوا نا ہے کہ یہ قومی فریضہ تمام متعلقین نے مل کر پورا کرنا ہے۔ یہ خود میڈیا انڈسٹری کے اپنے مفاد میں بھی ہے اور قوم و ملک کے تو ہے ہی۔۔۔(بشکریہ جنگ)۔۔