تحریر: محمد عامر خاکوانی
ہمارے سیاستدانوں کو ہمیشہ یہ شکوہ رہتا ہے کہ میڈیااکثر اوقات ان کے حوالے سے یک طرفہ رپورٹنگ کرتا ہے ۔ان کے خلاف مبینہ کرپشن سکینڈل دانستہ طورپر شائع یا نشر کئے جاتے ہیں تاکہ سیاسی قوتیں کمزور ہوں اور غیر سیاسی قوتوں کو فائدہ پہنچے۔ کسی بھی معروف سیاسی لیڈر کا انٹرویو ٹی وی پر سنیں، یہ بات وہ ضرور کہے گا۔ پیپلزپارٹی کے لیڈر یہ پچھلے تین عشروں سے کہہ رہے ہیں ، چند ایک برسوں سے مسلم لیگ ن کے لوگوں نے بھی یہی گیت گنگنانا شروع کر دیا، ہمارے قوم پرستوں کو تو”انسانی تاریخ“ کے پہلے دن ہی سے یہ شکوہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ان کے خلاف ہے، اس لئے میڈیا کو استعمال کیا جاتا ہے۔ نائن الیون کے بعد مذہبی جماعتیں اور ان کے زیراثر نوجوان بھی اسی احتجاجی کیفیت کا حصہ بن گئے۔ اپنے مذہبی ذوق کی بدولت انہوں نے” دجالی میڈیا“ کی اصطلاح نکالی اور یوں اپنا کتھارسس کیا۔
اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی بحثیں چلتی رہتی ہیں۔ ہمارے جیسے چند لوگ جن کا میڈیا سے باقاعدہ تعلق ہے، یہ سب گلے شکوے سن لیتے ہیں کہ چلیں کچھ تو ان کا غبار ہلکا ہوجائے۔ کبھی کسی سے سنجیدہ گفتگو ہوتو انہیں دو تین نکات سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔پہلا یہ کہ میڈیا ایک جگہ بیٹھ کر نہیں سوچتا، یہ ایک وجود نہیں بلکہ جداگانہ حیثیت والے کئی میڈیا گروپس ہیں جو میڈیا کی مجموعی شناخت اور ہیئت بناتے ہیں۔ ان سب کی اپنی سوچ، پالیسی اور مزاج ہے۔ پرنٹ میڈیا یعنی اخبارات بالکل ہی الگ انداز میں سوچتے اور کام کرتے ہیں۔ہراخبار کا اپنا ایک حلقہ ہے، جس کے بڑے حصے نے وہی اخبار خریدنا ہے۔ ٹی وی چینلز کی حکمت عملی اس سے نہایت مختلف ہے۔ وہ ایک خاص لمحے میں زندہ ہوتے ہیں۔ ان کے ناظرین کا حلقہ تو ہے، مگر وہ اخبار جتنا وفادار نہیں۔جس ہاتھ میں ریموٹ کنٹرول ہے، اسے بٹن دبانے اور چند لمحوں میں کئی چینلز دیکھنے سے کون روک سکتا ہے؟جس کا مال اچھا ہوگا، وہ دیکھنے والے کو رکنے پرمجبور کرے گا، جیت اسی کی ہوگی۔ ٹی وی چینلز اسی لئے اپنی تمام جنگ اس لمحے کو زیادہ سے زیادہ پرکشش بنانے اور اپنے پرائم ٹائم ٹاک شوزکو مختلف طریقوں سے منفرد اور دلچسپ بنانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے سنسنی خیر سرخیوں، سیاسی مخالفین کی لڑائیوں، تند وتیز سوالات، چھوٹے سے ایشو کو کھینچ کر لمبا کرنا اور ناظرین کو تادیر سکرین تک چپکائے رکھنے کی مختلف ترکیبوں کو برتا جاتا ہے۔ میڈیا کے بیشتر ناقدین کا اعتراض الیکٹرانک میڈیا پر ہوتا ہے۔ اخبارات اپنے عمومی ضابطہ اخلاق کا بڑی حد تک خیال رکھتے ہیں، خبروں کا میرٹ اس حد تک یکساں ہے کہ روزانہ صبح اٹھ کر بڑے تین چار اخبار دیکھے جائیں تو یوں لگے گا کہ ان تمام نے ایک جگہ بیٹھ کر اخبار ترتیب دیا۔اگرچہ ہر اخبار اپنی سٹوریز اور ٹریٹمنٹ دوسرے اخبار سے مکمل طور پر پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ پروفیشنل اپروچ ہے جو مختلف اخبارات میں بیٹھے صحافیوں کو ایک خاص معیار پر جانچنے، پرکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ کرکٹ کھیلنے والے اس بات کو زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ ایک باﺅلر خواہ وہ پاکستان میں گیند کرا رہا ہو، بھارت، سری لنکا یا پھر انگلینڈ، آسٹریلیا میں …. اسے معلوم ہوتا ہے کہ اگر بلے باز کو فل ٹاس یا اوورپچ گیند کرائی تو جواب میں خوفناک شاٹ کھیلی جائے گی۔دنیا کا ہر اچھا بلے باز کمزور گیند کو ایک لمحے کے دسویں حصے میں پہچان کر اسے گراﺅنڈ سے باہر پہنچا دیتا ہے۔اچھے صحافی کی سونگھنے کی حس بھی اسی طرح تیز ہوتی ہے۔آج کی صحافت میں بعض مستثنیات البتہ موجود ہیں، بعض میڈیا ہاﺅسز اپنی مخصوص پالیسیوں، حکمران جماعت کے ساتھ تعلق کی بنا پر بعض اوقات کوئی خاص پوزیشن لے لیتے ہیں، اس کا عکس اخبار کی سرخیوں پر بھی پڑتا ہے، مگر اس میں صحافیوں کا کوئی قصور نہیں۔
صحافت اور صحافیوں کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ انہوں نے اپنے کاندھوں پر بھاری بوجھ اٹھا رکھا ہے۔ رڈیارڈ کپلنگ کی ایک مشہور نظم کے مطابق سفید فام یعنی گوروں پر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ غیر مہذب پسماندہ قوموں کو تہذیب یافتہ بنائیں۔کہا جاتا ہے کہ اس نظم میں کالونیل ازم (سامراجیت)کے مظالم کا جوازتراشا گیا ہے۔ اس سے سفید آدمی کے بوجھ (The White Man’s Burden)کی طنزیہ اصطلاح وجود میں آئی۔ہمارے میڈیا کے کندھوں پر ایک نہیں دو بوجھ ہیں۔ اس نے سماج کو سدھارنے کا ٹھیکہ بھی لے رکھا ہے اور دوسرا اسے عوام کی آواز بننے کا بھی شوق ہے۔شوق کا لفظ طنزیہ استعمال نہیں کیا،دنیا بھر میں صحافت کے حوالے سے یہی سوچ ہے کہ میڈیا دراصل عوام کے دلوں اور جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔صحافیوںکا لوگوں سے براہ راست رابطہ اور تعلق ہے اور یہی ان کی قوت اور اثاثہ ہے۔ صحافی اور صحافتی ادارے باربار حکومتوں اور کبھی اپوزیشن جماعتوں کی برہمی کا نشانہ اسی لئے بنتے ہیں کہ وہ عام آدمی کی سوچ بلا جھجک بیان کر ڈالتے ہیں۔ کرپشن سکینڈل بیان کرنا اور احتساب کے پرچم کو تھامے رکھنا اسی وجہ سے صحافیوں کی ذمہ داری اور ایک طرح سے مجبوری ہے۔انہیں خریدنے، دبانے یا توڑنے کی بار بار کوششیں ہوتی ہیں، اس کے باوجودکسی آزاد معاشرے میں میڈیا کو مکمل طور پر کنٹرول کرنا ممکن نہیں۔ ویسے بھی اگر صحافتی ادارے حکومتوں کے کاسہ لیس بن جائیں تو اپنی صحافتی پوزیشن اور قوت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ایسے اخبار اور چینل کو کوئی پڑھنے، دیکھنے کو تیار نہیں جو حکومت کے گن گائے اور کرپٹ عناصر کی ترجمانی کرتا رہے ۔
اپنی اندرونی تقسیم، مسابقت، پیشہ ورانہ حسد اوربعض اوقات کسی دوسرے میڈیا ہاﺅس کے لئے شدید ناپسندیدگی کے باوجود کوئی بھی اخبار، چینل کرپشن کے حوالے سے سامنے ابھر کر آنے والی کسی لہر کو نظرانداز نہیں کر سکتا ۔ جیسے ہی کوئی بڑا سکینڈل سامنے آئے، سب اس پر جھپٹ پڑتے ہیں ، ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے قارئین یا ناظرین کو دوسرے سے بہتر اور بھرپور معلومات فراہم کی جائے۔ میڈیا کا پھیلاﺅ جس قدر بڑھا ہے، نیوز ویب سائٹس اور سوشل میڈیا نے بے پناہ نئے مواقع پیدا کئے ہیں، ایسے میں میڈیا کی فعالیت اور خبرکو کسی نہ کسی ذریعے سے باہر لے آنے کی صلاحیت بہت بڑھ گئی ہے۔ ذرا غور فرمائیں کہ جنرل پرویز مشرف اپنے دور میں میڈیا سے برہم تھے، آصف زرداری صحافیوں سے سخت نالاں تھے، شریف خاندان اپنی شکست اور ناکامی کی بڑی ذمہ داری میڈیا پر ڈالتا ہے اور اب تحریک انصاف اور عمران خان ابتدائی مہینوں میں صحافیوں اور میڈیا سے ناخوش نظر آ رہے ہیں۔ پچھلے پندرہ برسوں میں آنے والی یہ تین چار حکومتیں اگر میڈیا کے حوالے سے اتنی پریشان ، ناخوش اور مضطرب رہیں تواس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود صحافیوں اور صحافتی اداروں کو خریدنا ممکن نہیں رہا۔ ہر دور میں آزادی کے ساتھ لکھنے اور بولنے والوں کی اتنی تعداد ضرور موجود رہی ہے، جس نے حکمرانوں کی راتوں کی نیند حرام کئے رکھی۔ واضح رہے کہ میڈیا کی کمزوریوں اور گاہے غیر پیشہ ورانہ رویے سے انکار ہرگز نہیں، صرف یہ بتانا مقصود تھا کہ حالات اتنے برے نہیں ، جتنے ہم سمجھ لیتے ہیں۔ (محمد عامر خاکوانی)۔۔