تحریر: حبیب الرحمان
آج کے جدید دور میں روایتی میڈیا یعنی ٹیلی وژن اور سیٹلائیٹ پر سینکڑوں چینلز موجود ہیں جہاں مختلف قسم کے پروگرام چوبیس گھنٹے دیکھنے کو ملتے ہیں، ریڈیو پر بھی ایف ایم اور اے ایم نشریات اپنے سامعین کو تفریح اور معلومات فراہم کررہے ہیں اور سوشل میڈیا بھی لوگوں کے ذہنوں پر راج کررہا ہے۔ ان حقائق کو دیکھتے ہوئے روایتی میڈیا کی اہمیت اور افادیت سے انکار ممکن نہیں تو دوسری طرف غیر روایتی میڈیا بھی اپنی جگہ قائم ہے جو لوگوں کو قریب لانے اور رائے سازی اور میں اپنا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لہذا صحافیوں، اینکروں کے ساتھ ساتھ منبر پر بیٹھے مولویوں ، مبلغوں اور علماء کرام پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ بطور اوپینئن لیڈر کام کرتے اپنے فرائض کو سمجھیں معاشرے کو فلاح کی جانب لے کر آئیں، صحافی اور پرائیویٹ میڈیا مالکان ریاستی پالیسیز اور صحافتی اخلاقیات کو سمجھیں۔ جانبدارانہ اور کاروباری ذہنیت سے بالا تر ہوکر میڈیا کے ریاستی ستون کو مضبوط بنائیں، تمام علمائے کرام اور مولوی حضرات ایک ٹیبل پر بیٹھ کر اجماع کے ذریعے مسائل حل کریں، تکفیر اور خروج کے فتنے کو مٹائیں، مذہبی تفریق اور فرقہ واریت کو خاتمہ کی جانب لے کر جائیں۔ اپنی تقاریر اور پیغامات کو لوگوں میں منتقل کرنے سے قبل ہی مثبت اور نفرتوں سے پاک بنائیں۔ ایک پیج پر آکر تنظیم اور اتحاد کی راہیں ہموار کرتے ہوئے ریاستی بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دیں۔ تاکہ مملکت خداداد کی آئندہ نسلیں بلا خوف وخطر سانس لیں اور ایک پرامن معاشرہ وجود میں آئے۔(حبیب الرحمان)۔۔