تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
دو قسم کے لوگ سوشل میڈیا پر ملتے ہیں۔ ایک وہ ہیں کہ جب حکمران جماعت کے فین کلب اور گالی گلوچ بریگیڈ کے طعنے سنتے ہیں تو انہیں کمینی سی خوشی محسوس ہوتی ہے اور وہ دو کمنٹس کرتے ہیں ”ہن آرام اے‘‘ یا ”ہور چوپو‘‘۔ ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ سمجھتے تھے کہ خان صاحب ملک میں بہت بڑی تبدیلی لائیں گے ‘ پچھلے کرپٹ حکمرانوں سے جان چھوٹے گی اور ملک کو ایک ایماندار قیادت ملے گی‘ اب نتیجہ اس کے الٹ نکلا ہے۔ نہ صرف موجودہ حکمران نالائق نکلے ہیں بلکہ کرپٹ ٹولہ بھی حکومت میں ہے اور مزے کررہا ہے۔ان پر تنقید کرو تو گالیاں کھائو۔دوسرا طبقہ حکمران جماعت کے حامیوں کا ہے جن کا خیال ہے کہ عمران خان فرشتے کہاں سے لائیں‘ جو مارکیٹ میں سودا موجود تھا وہی ہانک کر اقتدار میں لے آئے۔ بہت سوں کا خیال ہے کہ عمران خان کے ساتھیوں کی نالائقی یا کرپشن کو اس لیے بھی نظر انداز کرنا چاہئے کہ یہ چھوٹی خرابی ہے۔ ان کے نزدیک زرداری اور نواز شریف بڑی خرابی ہیں۔
یوں اس ملک میں مقابلہ اب بڑی اور چھوٹی خرابیوں میں ہے۔اچھائی اور برائی میں نہیں۔خان صاحب کے حامیوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ان کے وزیروں کی کرپشن اور لوٹ مار سامنے لا کر ہم دراصل زرداری اور نواز شریف کا بھلا کررہے ہیں کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آجائیں گے اور لوٹ مار کا سلسلہ وہیں سے شروع ہوگا جہاں2018 ء کے الیکشن میں ٹوٹا تھا‘لہٰذا جب ہم لوگ عمران خان دور کی کرپشن سامنے لاتے ہیں تو ان کا خیال ہوتا ہے کہ ہم زرداری اور نواز شریف کے پے رول پر ہیں اور ان کا راستہ ہموار کررہے ہیں۔ان سب کا خیال ہے کہ ہمیں جرنلزم اس طرح کرنی چاہئے جس سے ہر حال میں خان صاحب کا اور ان کے ارب پتی دوستوں کا بھلا ہو‘ جنہوں نے لاکھوں لگائے تو کروڑوں کما رہے ہیں اور کروڑوں والے اربوں کما رہے ہیں۔ ہمیں یہ بات نہیں کرنی چاہئے کہ یہ دنیا کی شاید واحد حکومت ہوگی جو چھ ماہ پہلے لاکھوں ٹن گندم اور چینی یہ کہہ کر افغانستان کو بیچ دیتی ہے کہ ملک میں وافر ہے اور چھ ماہ بعد روسی کسانوں سے چالیس لاکھ ٹن گندم یہ کہہ کر دو تین ارب ڈالرز میں منگوا لیتی ہے کہ ملک میں گندم کی قلت ہے۔ خان صاحب کے حامی سمجھتے ہیں کہ ہمیں یہ بات نہیں کرنی چاہئے ورنہ انکی نالائقی اور کرپشن ایکسپوز ہوتی ہے جس کافائدہ زرداری اور نواز شریف کو جاتا ہے۔اسی طرح ہمیں سیمنٹ‘ آئی پی پیز‘ چینی سکینڈل اوربجلی گھروں کی انکوائری رپورٹس پر بھی بات نہیں کرنی چاہئے کہ کیسے انہیں دبا دیا گیا کیونکہ یار دوست ملوث تھے۔مگرعوام کا بھی قصور نہیں کیونکہ ہمارے ہاں اس طرح کی صحافت عام ہے‘ سیاسی پارٹیوں نے اپنے بندے میڈیا میں بھرتی کرا لئے ہیں جو سرعام ان پارٹیوں اور لیڈروں کے حق میں پوزیشن لیتے اور دلائل کے انبار لگا دیتے ہیں۔ یوں عوام بھی عادی ہوچکے ہیں کہ آپ اس وقت تک صحافی کہلوانے کے قابل نہیں اگر آپ عمران خان‘ زرداری یا نواز شریف کے ہمدرد نہیں اور انکی کرپشن اور نالائقی کو اچھا بنا کر پیش نہیں کرتے۔ اگر نیوٹرل ہیں اور سب پارٹیوں پر تنقید کرتے ہیں تو آپ صحافی نہیں ۔ میڈیا میں زندہ رہنا ہے تو آپ کو کسی پارٹی کا سہارا چاہئے۔ آپ کو ان پارٹیوں کا سرکاری یا غیرسرکاری مشیر اور بھونپو بننا پڑے گا۔
حیرانی ہوتی ہے کہ یہ کیسے عوام ہیں جو اپنے اپنے لیڈروں کے جھوٹ اورفریب پر ان کی کلاس لینے کے بجائے الٹا ان کا نہ صرف دفاع کرتے ہیں بلکہ ان کی کرپشن پر خوش بھی ہوتے ہیں۔میری رائے میں ہم سب انہی لوگوں کو سپورٹ کرتے ہیں جو ہمیں کسی نہ کسی حوالے سے متاثر کرتے ہیں۔ ہم ان کے اندر وہ سب ”خوبیاں‘‘پاتے ہیں جو ہمارے اندر نہیں ہیں۔ ہم وہ سب کچھ پانا چاہتے ہیں جو ان کے پاس ہے۔ وہ ہمارا رول ماڈل بن جاتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ اگر ہم ان لوگوں کے پیچھے لگ جائیں تو ہم ان کی طرح ارب پتی نہ بھی بن سکے تو کم از کم لاکھ پتی تو بن ہی جائیں گے۔ ہم کرپٹ لوگوں کو اس لیے پسند کرتے ہیں اور ان کی کرپشن کا دفاع کرتے ہیں کہ ہمارے اندر کہیں نہ کہیں کرپشن کا عنصر موجود ہوتا ہے۔ ہم ہر دن اپنی اوقات اور حیثیت کے مطابق کرپشن کررہے ہوتے ہیں‘ لہٰذا ہمیں ان کی کرپشن بری نہیں لگتی۔ کرپٹ لوگ اور کرپٹ لیڈر ہمیں اپنے ہم خیال لگتے ہیں‘ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ اگر ان رول ماڈلز کو برا سمجھا گیا تواس کا مطلب یہ ہوگا کہ معاشرہ ہمیں بھی برا سمجھے گا ۔
مجھے اس انسانی نفسیات کی سمجھ اس دن آئی جب میں اور ڈاکٹر ظفرالطاف 2002ء میں ایک بے قصور نوجوان کی پنڈی کی ایک نچلی عدالت سے ضمانت کراچکے تو جہاں ان سب سرکاری اہلکاروں نے اپنی اپنی ”مٹھائی‘‘ ہماری جیبوں سے نکلوائی تھی‘ وہیں ریکارڈ کیپنگ میں موجود ایک نوجوان نے ہمارے چہروں پر پھیلی اداسی یا ڈپریشن کو دیکھ کر ڈاکٹر صاحب اور میری خوبصورت کونسلنگ کی تھی۔ اسے لگا کہ ہم شاید پہلی دفعہ عدالت آئے ہیں‘ لہٰذا یہاں کے رسم و رواج سے لاعلم ہیں‘ حالانکہ ڈاکٹر ظفر الطاف خودایک بیوروکریٹ ہونے کے ناتے مجسٹریٹی نظام میں اسی پنڈی کی عدالتوں میں کبھی عدالت بھی لگاتے تھے۔ اس لڑکے نے پہلے تو ہم سے پانچ سو روپیہ لیا تاکہ جج صاحب کا ضمانت حکم نامہ رجسٹر میں ریکارڈ کرے اور پھر بولا: صاحب آپ کچھ پریشان لگ رہے ہیں۔میں پچھلے ہفتے ساہیوال گیا تھا‘میرا بھائی وہاں گرفتار تھاتو میں نے بھی ہر اہلکار کو ہنسی خوشی پیسے دیے تھے۔ مجھے پتہ تھا کہ جب میں خود پیسے لیتا ہوں تو انہیں کیوں نہ دوں۔ میں نے جو خرچہ ساہیوال میں سرکاری اہلکاروں پر کیا تھا وہ یہاں واپس آکر ایک ہی دن میں ریکور کر لیا۔ آپ بھی یہی کریں۔ جہاں آپ کام کرتے ہیں آپ وہاں آنے جانے والوں سے اسی طرح پیسے نکلوا کر اپنا پیسہ پورا کر لینا۔ اس میں کیا مسئلہ ہے؟میں اور ڈاکٹر صاحب واپسی کا سارا راستہ ایک دوسرے سے نظریں چراتے رہے۔ ڈاکٹر صاحب کو جب اس نوجوان نے یہ مشورہ دیا تھا اُس وقت وہ گریڈ بائیس کے وفاقی سیکرٹری‘ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئر مین‘ کرکٹ ٹیم کے سلیکٹر‘ ٹیم منیجر‘ اور حفیظ کاردار کے ساتھ کرکٹ بورڈ کے سات سال تک سیکرٹری رہ چکے تھے۔ڈاکٹر صاحب مجھے گھر اتارتے وقت اتنا بولے تھے کہ یار میں نے بھی فلاسفی ‘ سائیکالوجی اور معیشت پڑھ رکھی ہے‘ ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی لیکن اس میٹرک پاس نوجوان کو مجھ سے زیادہ اس معاشرے کی نفسیات کی سمجھ ہے۔ وہ کہہ تو ٹھیک رہا تھا کہ ہم سب کا ہاتھ ایک دوسرے کی جیب میں ہے۔ کوئی ہماری جیب سے پیسے نکال لیتا ہے تو ہم کسی اور کی جیب سے نکال لیتے ہیں۔ اگر ہمارے پاس بڑا عہدہ ہے تو ہم بڑا ہاتھ مار لیتے ہیں ورنہ سرکاری اہلکاروں کی طرح سو پانچ سو پر گزارہ کر لیتے ہیں۔
جب ہم سب اس معاشرے میں اس فلاسفی پر زندگی گزار رہے ہیں کہ کسی نے میری مجبوری میں میری جیب خالی کرلی تو میں نے کسی اور کی خالی کر لی تو پھر اس معاشرے کو زرداری‘ نواز شریف یا عمران خان کی حکومتوں یا ان کے دوستوں کی کرپشن کیوں بری لگے گی؟اپنے اپنے لیول کے مطابق تو ہم سب سارا دن یہی کررہے ہوتے ہیں۔یہ سب حکمران اس معاشرے کے رول ماڈلز ہیں اور جو اِن کے رول ماڈلز کی شان میں گستاخی کرے گا یا ان کی لوٹ مار میں خلل ڈالے گا وہ ان سے طعنے اور گالیاں سننے کو تیار رہے۔اس نوجوان کا شکریہ جس نے صرف پانچ سو روپے کے عوض مجھے اور ڈاکٹر ظفر الطاف کو اس معاشرے کی اوقات اور نفسیات ایک لمحے میں سمجھا دی تھی۔سودا مہنگا نہیں تھا۔۔ (بشکریہ دنیا)۔۔