media mein kitni polarizattion

میڈیا میں کتنی پولرائزیشن؟

تحریر: ریاض سہیل۔۔

پاکستان کے نامور اینکر پرسن حامد میر 19 اپریل 2014 کو کراچی ایئرپورٹ سے اپنے دفتر جیو نیوز جا رہے تھے تو ان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ان کے چھوٹے بھائی عامر میر نے اسی چینل پر بات کرتے ہوئے پاکستان کے انٹیلیجنس ادارے آئی ایس آئی پر اس حملے کی سازش کا الزام عائد کیا۔ چند دنوں بعد جیو نیوز نے اس بیان پر معذرت بھی کی۔حامد میر خود پر اس حملے کو پاکستان کی میڈیا انڈسٹری کے لیے ’ٹرئننگ پوائنٹ‘ قرار دیتے ہیں جو صحافتی حلقوں میں ’تقسیم‘ کا باعث بنا۔ پھر 2018 میں عمران خان کی حکومت کے قیام کے ساتھ، ان کے بقول، صف بندی مزید واضح ہوگئی۔

جہاں پاکستان کے عوام اور ریاستی اداروں میں تقسیم کی بات ہوتی ہے وہاں یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ ریاست کے چوتھے ستون یعنی میڈیا میں کتنی پولرائزیشن ہے اور کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ رجحان بقائے باہمی میں بڑی رکاوٹ ہے۔

حامد میر کے علاوہ بعض دیگر تجزیہ کار بھی ان پر حملے کو میڈیا میں اس حالیہ تقسیم کا نقطۂ آغاز سمجھتے ہیں۔جیسے آئی بی اے کے سینٹر فار ایکسیلینس اِن جرنلزم کی ڈائریکٹر عنبر رحیم شمسی کے مطابق ماضی میں کوئی بھی ادارہ کھل کر تو اسٹیبلشمنٹ کا حمایتی نہیں ہوسکتا تھا تاہم اس حملے کے بعد یہ تقسیم کھل کر سامنے آئی۔اسلام آباد کے سینیئر صحافی حسن ایوب کا کہنا ہے کہ مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ تقسیم 2014 میں شروع ہوئی مگر 2018 کے بعد عمران خان کی سیاسی مقبولیت اور ان کے دورِ حکومت میں میڈیا کے دو واضح کیمپس بن چکے تھے: تحریک انصاف کے حامی اور تحریک انصاف کے مخالف۔تاہم عنبر شمسی کے خیال میں یہ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے حامی اور مخالف گروہ تھے جن میں بٹوارے کی بعض سیاسی تو کچھ بقا کی وجوہات تھیں مگر وقت کے ساتھ ان کی کاروباری وجوہات بھی ظاہر ہوئیں۔وہ کہتی ہیں کہ اگر سرکاری اشتہارات پر انحصار آپ کے کاروباری ماڈل کا حصہ ہے تو آپ کو حکومتِ وقت، فوجی اداروں اور ان کی فلموں سے کچھ نہ کچھ معاضہ ملتا رہتا ہے۔ ’اس بزنس ماڈلز کی وجہ سے بہت زیادہ جھکاؤ آجاتا ہے۔ پھر وہ آزادانہ صحافت نہیں کرسکتے۔

ادھر صحافی و یوٹیوبر صدیق جان کی رائے میں میڈیا میں یہ تقسیم آزادانہ صحافت سے ہی جڑی ہے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ ’آپ پانچ آزاد صحافی بتائیں جو مین سٹریم میڈیا پر آتے ہیں؟ ایک یا دو نام لینے کے بعد خاموشی ہوجائے گی۔ اس وقت لوگ کہتے ہیں کہ کوئی اگر مگر نہیں۔۔۔ ٹھیک کو ٹھیک، غلط کو غلط کہو، کھل کر بات کرو۔جبکہ مین سٹریم اینکر اور یوٹیوبر منصور علی خان یہ تبصرہ کرتے ہیں کہ عام لوگوں کو پہلے سے پتا ہوتا ہے کہ ایک صحافی ’فلاں سیاسی جماعت کے حوالے سے اپنا کیا سیاسی نقطہ نظر بیان کرے گا۔ان کے مطابق کسی آزاد صحافی کی رائے ’حالات کے مطابق بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔وہ اپنی مثال دیتے ہیں کہ وہ عمران خان پر ان کے گورننس کے سٹائل اور بعد میں ’امریکی سائفر‘ سے متعلق دعوؤں پر تنقید کرتے آئے ہیں لیکن ’اب جو (ان کی جماعت) پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ہو رہا ہے۔۔۔ میری نظر میں وہ (بھی) غلط ہے۔تاہم لندن میں خود ساختہ جلا وطنی گزارنے والے صحافی صابر شاکر اس تقسیم کی وجہ سیاسی تقسیم کو قرار دیتے ہیں۔ ’اس کمزوری کا فائدہ حکومتوں اور ریاستی اداروں نے اٹھایا کیونکہ میڈیا ہاؤسز کی ترجیح اپنے مالی مفادات ہوتے ہیں۔

کئی بار ایسے مواقع آئے کہ ایک ہی موضوع پر صحافیوں کے موقف سے ہو بہو یکسانیت ظاہر ہوئی، چاہے بات اخبارات کی ہو یا سوشل میڈیا کی۔اس سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صحافی سیاسی جماعتوں کے پروپیگنڈا کا حصہ بنتے ہیں یا اپنی صحافت میں کوئی مخصوص بیانیہ ساتھ لے کر چلتے ہیں۔اینکر پرسن منصور علی خان بتاتے ہیں کہ واٹس ایپ گروپس سے پھیلنے والی یہ غیر مصدقہ خبریں ان تک بھی پہنچی ہیں، بعض وی لاگرز کے گروپس بنے ہوئے ہیں۔ ’چند وی لاگرز ایک ہی موضوع پر ایک ہی زوایے سے اپنے وی لاگز کرتے ہیں۔وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تاہم عام عوام میں اس رجحان کو پہچاننے کی بھی صلاحیت ہے۔صابر شاکر بھی اسلام آباد کے ایک متحرک رپورٹر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ کبھی بھی ’ہم خیال صحافیوں کے واٹس ایپ گروپس‘ کا حصہ نہیں رہے۔ ان کے بقول ہر جماعت اور ہر محکمہ چاہے گا کہ اس کے مفاد میں خبریں چلیں تاہم یہ تو صحافی کا کام ہے کہ اس کی تفتیش کرے اور اس کے بعد اس کو آگے پھیلائے۔صدیق جان پر سوشل میڈیا کے ذریعے تحریک انصاف کے بیانیے کی حمایت کا الزام لگتا آیا ہے تاہم وہ کہتے ہیں کہ صحافیوں کی اکثریت ’اِدھر ہیں یا ادھر ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اگر ایک صحافی کسی سیاسی جماعت کے موقف کو ٹھیک سمجھتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ شاید وہ جماعت انھیں فیڈ کر رہی ہے لیکن اس سے یہ تاثر تو جائے گا کہ میں اس (پارٹی) کی حمایت کر رہا ہوں۔

صدیق جان کے برعکس صحافی حسن ایوب کو تحریک انصاف کے ناقدین میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مسلم لیگ ن کے زیادہ قریب ہیں۔وہ عمران خان کی حکومت کے ابتدائی دنوں کا حوالہ دیتے ہوئے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے اس وقت کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے ایک روز ’میڈیا کو بلا کر کہا کہ آپ نے چھ ماہ مثبت رپورٹنگ کرنی ہے۔ پھر پی ٹی آئی حکومت کے حوالے سے یہ مثبت رپورٹنگ ہوتی رہی۔ اس کی مخالفت میں بات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ان دنوں (اینکر پرسن) سلیم صافی اور طلعت حسین کو آف ایئر کر دیا گیا۔

صحافیوں کو ان قسم کی ہدایات کا دعویٰ کئی صحافیوں کی جانب سے کیا گیا تاہم آصف غفور کے پیشرو میجر جنرل بابر افتخار نے جنوری 2021 کی ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ فوج سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔اکتوبر 2022 میں خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے اپنی نوعیت کی پہلی پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ ’گذشتہ سال (2021 میں) ادارے نے فیصلہ کیا کہ ہم سیاست سے باہر نکل جائیں۔ یہ صرف آرمی چیف کا فیصلہ نہیں تھا۔ اس پر کافی بحث ہوئی، ہم نے یہ فیصلہ ملک کے مفاد میں کیا۔ادھر عنبر شمسی، جو خود ماضی میں بطور صحافی اور اینکر پرسن کام کر چکی ہیں، کہتی ہیں کہ میڈیا کے اداروں کو مخصوص صحافیوں کو پروموٹ کرنے پر اشتہارات کے ذریعے خوش رکھا جاتا ہے۔ ’سیاسی لائن کا تعین اس طرح ہوتا ہے۔ اس میں کچھ خبریں آپ کو ملتی ہیں، سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایکسکلوسیو ملتے ہیں۔۔۔۔ ظاہر ہے اس سے رائے عامہ اور ذہن سازی متاثر بھی ہوتی ہے۔

پاکستان میں کئی صحافی اب مین سٹریم میڈیا میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنے چینلز چلا رہے ہیں۔ اس سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مقبول بیانیے کی کوریج سے سوشل میڈیا پر آپ کی آمدن بھی بڑھتی ہے؟تجزیہ کار عنبر شمسی کہتی ہیں کہ عمران خان اور ان کی جماعت کی خاصی مقبولیت ہے اور ان کے فالوورز کی ایک بڑی تعداد بیرون ملک مقیم ہے جن کے ویوز کی بدولت آپ زیادہ ڈالرز کما سکتے ہیں۔ ’پھر یہ تقسیم صرف سیاسی نہیں رہتی بلکہ یہ معاشی تقسیم کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔مین سٹریم اینکر منصور علی خان، جو خود اپنا یوٹیوب چلاتے ہیں، کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر انفرادی کام کے لیے کئی چینل سے اس کی اجازت درکار ہوتی ہے۔ ان کے مطابق صحافی کا سب سے بڑا ہتھیار اظہار رائے کی آزادی سوشل میڈیا پر ’زیادہ ہے۔مین سٹریم چینلز کے برعکس سوشل میڈیا پر صحافی اپنی رپورٹ کو بغیر کاٹے چلا سکتے ہیں۔ صدیق جان کے مطابق ’سوشل میڈیا پر آپ کھل کر بات کرتے ہیں‘ جو ٹی وی چینلز پر ممکن نہیں۔

صحافیوں کے وی لاگز میں اکثر سیاسی جماعتوں پر تجزیے کیے جاتے ہیں۔ گذشتہ سال عمران خان کی گرفتاری، نو مئی کو فوجی تنصیبات پر توڑ پھوڑ کے واقعات اور تحریک انصاف کے کارکنان اور رہنماؤں کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن جیسے موضوعات پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے کھل کر کوریج کی گئی، جو ٹی وی چینلوں پر اس طرح نظر نہیں آتی۔ یوٹیوبر صحافیوں کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی آڈیئنس کون ہے۔منصور علی خان کا ماننا ہے کہ سوشل میڈیا پر لوگ بکھرے ہوئے ہیں اور کسی کی اپنی سیاسی جماعت سے وابستگی بدلتی نہیں۔ ’وہ کبھی کبھار آپ کے نقطۂ نظر سے بھی اختلاف کر رہے ہوں گے لیکن سننے کے لیے ضرور آئیں گے۔صحافی اور یوٹیوبر صدیق جان اپنے دفاع میں کہتے ہیں کہ ’ایک تاثر ہے کہ اگر آپ پی ٹی آئی کی بات کریں گے تو آپ کے ویوز زیادہ آئیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی اتنی مقبول جماعت ہے لوگ اس کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔۔۔ (خاص کر تب) جب مین سٹریم میڈیا پر ان کا بلیک آؤٹ ہے۔اسی طرح یہ رائے بھی پائی جاتی ہے کہ صحافیوں کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اپنی مرضی کی سیاسی جماعت کی حمایت ظاہر کریں۔ صابر شاکر اب ٹی وی چینلوں سے غائب رہتے ہیں مگر روزانہ کی بنیاد پر وی لاگز ریکارڈ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ گن پوائنٹ پر کہیں گے کہ اس کو سپورٹ کریں، اس کو نہیں تو وہ غلط ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت جانے کے بعد حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے حکومت بنائی اور آٹھ فروری کے الیکشن تک ملک میں نگران حکومت ہے۔ اس دوران کئی صحافیوں پر یہ الزام لگا کہ انھوں نے سیاستدانوں کی طرح ’وفاداریاں تبدیل کیں۔مگر بعض صحافیوں کے مطابق اس کا فیصلہ صرف عوام اور ان کے دیکھنے، چاہتے والے کر سکتے ہیں، نہ کہ کوئی سیاسی جماعت یا ان کے ساتھی صحافی۔منصور علی خان کہتے ہیں کہ کسی سیاسی جماعت کے پاس یہ حق نہیں کہ وہ صحافیوں میں غیر جانبداری کے سرٹیفیکیٹ تقسیم کرے بلکہ اس کا فیصلہ دیکھنے والے کرتے ہیں۔اسی ضمن میں صدیق جان ماضی میں صحافی حامد میر پر کی گئی اپنی تنقید پر معذرت کر چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے حامد میر سے اس لیے معذرت کی کیونکہ میرا ان سے اختلاف ہے تو اس کو اخلاقی دائرے میں رہ کر بھی کیا جاسکتا ہے۔جبکہ حسن ایوب تسلیم کرتے ہیں کہ صحافت میں اب غیر جانبداری نہیں رہی۔ ’آج سے پانچ، سات سال پہلے اگر کسی کو کوئی جانبدار کہے تو یہ ایک قسم کی گالی تھی۔ آج اس برائی کو کوئی برائی نہیں سمجھتا۔صابر شاکر کے بقول ’جب آپ کا بیانیہ کسی ایک پارٹی کے حق میں جائے تو دوسری جماعت مخالفت کرتی ہے۔ تو یقیناً صحافیوں اور ان کی آڈیئنس کی سوشل میڈیا فیڈ ایک دوسرے کو پہلے سے بھی پہچانتے ہیں۔عنبر شمسی کے مطابق ’جو لوگ یوٹیوب دیکھتے ہیں، وہ کہتے ہیں جس نظریے پر وہ خود یقین رکھتے ہیں، اسی کی سپورٹ میں انھیں خبریں ملتی ہیں۔(بشکریہ بی بی سی اردو)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں