pfuj ke naam khula khat

میڈیا مسائل کے حل کیلئے تین ماہ کی ڈیڈلائن۔۔

خصوصی رپورٹ۔۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے آزادی صحافت کے مکمل تحفظ اور میڈیا ورکرز کو درپیش معاشی بحران کے حل کے لیے بھرپور جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کااظہار کرتے ہوئے حکومت کو میڈیا کے مسائل کے حل کیلئے 3ماہ کی ڈیڈ لائن دی ہے لاہور کے مقامی ہوٹل میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ،پنجاب یونین آف جرنلسٹس اور لاہور پریس کلب کے اشتراک سے “آزادی صحافت اور میڈیا کو درپیش مسائل کا حل” کے موضوع سیمینارہوا ،جس سے سینئر قانون دان حامد خان،انسانی حقو ق کے ممتاز رہنما آئی اے رحمان۔ حسین نقی۔پی پی رہنما منظور چودھری ،مسلم لیگ ن کی رہنماعظمی بخاری ۔ منظور گیلانی۔شہزادہ ذوالفقار صدر پی ایف یو جے، ناصرزیدی سیکرٹری جنرل پی ایف یوجے ۔ ایچ آر سی پی کے سینئر وائس چیئرمین راجہ اشرف ۔ریحان پراچہ۔صدر پی یو جے قمرالزمان بھٹی نے خطاب کیا ، نظامت کے فرائض جنرل سیکرٹری پی ایف ئو جے خواجہ آفتاب نے انجام دیئے ،سیمینار میں حکومت کی پالیسیوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نے حکومت کو صحافیوں اور میڈیا کے معاملات کے حل کے لئے موثر اقدامات کرنے اور آزادی صحافت اوراظہار رائے کے حق کے خلاف بدترین دباؤ سے نمٹنے کے لئے تین ماہ کی مہلت د یتے ہوئے کہا اگر حکومت صحافیوں کی انجمنوں کے ساتھ مقررہ وقت میں ایسا فریم ورک تیارنہ کرسکی ، جو میڈیا سے وابسطہ افراد کو جسمانی ، معاشی اور ذہنی تحفظ فراہم کرسکے تو اس صورت میں ملک گیر احتجاج ، ہڑتالوں اور لاک ڈاؤن کیا جائے گا، حکومت فوری طور پر صحافیوں کے تحفظ کے لئے قانون سازی کو حتمی شکل دے ۔ “اس کے علاوہ ، الیکٹرانک ، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر اظہار رائے کو روکنے والی دفعات پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔کیونکہ اٹھنے والی آواز کو دبا دینا اور اختلاف رائے کو کچل دینا پاکستان کی ریاست ، جمہوریت اور سیاست کے مسائل کا حل نہیں ہے، پی ایف یو جے مارچ 2021 میں ہونے والے قومی کنونشن میں صحافیوں کے تحفظ کے لئے قانون کا اپنا مسودہ اور دیگر میڈیا ریگولیٹر ی قوانین میں ترمیم کے لئے سفارشات منظر عام پرلائےگا۔ ”پی ایف یو جے کے جنرل سکریٹری ناصر زیدی نے لاہور میں منعقدہ ایک سیمینار میں ان قراردادوں کا اعلان کیا ، جس میں صحافیوں ، انسانی حقوق کے کارکنوں اور وکلاء نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس موقع پر سینئرصحافی اور انسانی حقوق کے چیمپیئن آئی اے رحمان نے کہا کہ صرف دسمبر میں دو صحافی ہلاک ہوئے۔ “حکومتیں ہمیشہ میڈیا کو ایک ضروری برائی سمجھتی ہیں لیکن یہ حکومت میڈیا کو ایک غیر ضروری برائی سمجھتی ہے۔ اظہار رائے کی آزادی ہر شہری کا حق ہے۔ میڈیا عوام کی آواز ہے۔ ماضی خوبصورت تھا۔ سچائی کوبرداشت کرنا کبھی بھی آسان نہیں رہا لیکن اس مشق کوجاری رکھنا ضروری ہے۔ اظہار رائے کا حق پہلے آتا ہے اور پھر ہمارے معاشی حقوق۔ فاشزم کے سائے لمبے ہوتے جارہے ہیں ۔ یہ بھی گزر جائیں گے. مستقبل خوبصورت ہے۔ تجربہ کار صحافی حسین نقی نے کہا کہ ملک بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے ایک سال میں 15 سے 20 بلین ڈالر وصول کرتا ہے اور یہاں معاملات اسی طرح چل رہے ہیں۔“گھر میں ہزاروں مزدور بے روزگار ہیں۔ ہمیں پاکستان میں ایک ایسی تحریک کی ضرورت ہے جس میں صحافی ، وکلا ، طلباء ، ٹریڈ یونینیں اور ترقی پسند قوتیں آپس میں شامل ہوں۔پی ایف یو جے کے صدر شہزادہ ذوالفقار نے کہا کہ پچھلے دو سالوں میں میڈیا میں بحران بڑھ گیا ہے۔ 10-15 ہزار صحافی اور میڈیا ورکرز ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ کوئٹہ اور پشاور میں میڈیا کے بہت سے دفاتر بند ہیں۔ وہ صرف ایک رپورٹر اور ڈی ایس این جی کے ساتھ پریس کلبوں سے کام کرتے ہیں۔ فریڈم آف میڈیا انڈیکس میں پاکستان 142 ویں نمبر پر ہے۔ میڈیا فریڈم نیٹ ورک نے اطلاع دی ہے کہ گذشتہ چھ ماہ میں صحافیوں کے خلاف 17 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ سینئر صحافی اور تجزیہ کار امتیاز عالم نے کہا کہ میڈیا ہمیشہ اختیارات سے متصادم رہا ہے۔ اگر یہ ریاست کے مطابق بنتا ہے تو یہ لوگوں کی آواز نہیں رہ سکتا۔ اس موقع پر خطاب کرنے والے دیگر افراد میں حقوق خلق کے فاروق طارق ، چیئرمین شیعہ پولیٹیکل پارٹی پیر سید نوبہار شاہ ، امیر خان ہوتی ، ایڈووکیٹ عابد ساقی ، ایڈووکیٹ حامد خان ، مسلم لیگ (ن) کی عظمیٰ بخاری اور صحافی فرحان پراچہ شامل تھے۔ پی ایف یو جے نے اپنے اعلامیے میں کہا کہ حکومت میڈیا سے وابستہ افراد کے تحفظ کو یقینی بنانے میں مستقل طور پر ناکام رہی ہے صحافیوں کو “نامعلوم افراد” کے ہاتھوں دھمکیاں دینے ، جسمانی نقصان پہنچانے کے متعدد واقعات میں حکومت خاموش رہی ۔ مجرموں کی گرفتاری اور سزا کی ایک مثال بھی اس مقبول تاثر کو تقویت نہیں دیتی کہ یا تو حکومت بے بس ہے یا اس کا ساتھ دینے والا ہے۔ ایسے واقعات کی تحقیقات میں تیزی لانے اورذمہ دارا ن کی گرفتاری اور ان پر انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت فرد جرم عائد کرنےکےحکومت کے موثر اقدامات سے ہی اس خیال کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ ایساماحو ل مہیا کرناحکومت کی زمہ داری ہے جہاں حقائق کو عوام تک پہنچانے کیلئے صحافی کسی ڈر اور نقصان پہنچانے کے خوف کے بغیر کام کر سکیں ۔”حکومت کے اپنے پبلسٹی بجٹ کے استعمال سے متعلق غیر واضح پالیسی صحافیوں اور میڈیا انڈسٹری کے کارکنوں کی معاشی مشکلات کی ایک بڑی وجہ ہے۔ معاہدوں اور ملازمت کو کنٹرول کرنے والے قوانین کی مکمل خلاف ورزی کرتے ہوئے میڈیا منیجمنٹ اور مالکان کی جانب سے صوابدیدی بازیافتوں اور غیرقانونی خاتمے کے تحت پچھلے ایک دو سالوں میں 8000 کے قریب صحافی اور میڈیا کارکن اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ استثنیٰ کے ایک مکمل احساس ، میڈیا مینجمنٹ اور مالکان نے بھی انھیں حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ ملازمین کے معقول واجبات کی ادائیگی بھی نہ کریں جو ختم یا دوبارہ بحال ہوگئے ہیں۔ ایسے واقعات پیش آئے ہیں جب صحافیوں اور کارکنوں کو ان کے حقداروں کے لئے آواز اٹھانے پر دھمکیاں دی گئیں اور ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔ پی ایف یو جے نے حکومت سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ لاگو قوانین کے تحت ویج بورڈ ایوارڈ کے مکمل نفاذ کو یقینی بنانے کے لئے فوری طور پر اقدامات کرے اورادارے واجبات نہیں دے رہے ان کو سزا دی جائے۔ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین عابد ساقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں میڈیا آزاد نہیں،صحافیوں کی زندگی خطرات سے دوچار ہے ۔ صحافیوں کی جد وجہد میں پاکستان بار کونسل اور وکلاء صحافیوں کے ساتھ ہیں اور اس حوالے سے ہم نے جرنلسٹس پرو ٹیکشن کمیٹی بھی بنائی ہے ،سیمینار سے خطاب کرتے ہوئےلائرز فورم کے صدر حامد خان نے کہا ہے کہ وکلاء کیلئے بھی یہ ایک مشکل وقت ہے، میں بتانا چاہتا ہوں میڈیا نے شو کت عزیز کیس کو نظر انداز کیا ،میں شوکت عزیز کے تمام کیسوں میں ان کا وکیل تھا، میڈیا نے ان کے کیسز کو سرے سے کوئی کوریج ہی نہیں دی،اسٹیبلشمنٹ نے ان کیسوں کے حوالے سے مجھے ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش کی مجھے بتایا گیا کہ’’آپ نے کیا کرنا ہے‘‘ مجھے کہا گیا کہ اگر آپ ہمارے کہے گئے کی تعمیل کرینگے تو بدلے میں آپ کو عدلیہ میں اعلیٰ عہدہ دےدیا جائے گا،حامد خان نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ایک معزز جج کو احکامات صادر کرے کہ ’’ایک بنچ بناو‘‘ اور ججمنٹ کیا دینی ہے،اس طرح انصاف کیسے ممکن ہے؟حامد خاں جسٹس وقار سیٹھ کے وکیل بھی رہے ہیں یہ وہ معزز جج تھے جن کی زیرصدارت 3رکنی پنچ نے سابق صدر پرویز مشرف کو پھانسی دینے والے کا فیصلہ سنایا تھا،سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے ان کی برتری طے تھی۔ تین ججوں نے ان کو سپرسیڈ کیا۔ ایک سال تک سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت ہی نہیں ہوئی،حامد خان نے کہا وکلاء اور صحافی برادری متحد رہیں گے،ہم آپ کیساتھ ہیں ،ہم میڈیا مالکان اور میڈیا ورکرز کی حقوق کی جنگ میں ان سے قدم سے قدم ملاکر چلنے کو تیار ہیں سیمینار کے اعلامیہ کے مطابق مطالبات پورے نہ ہونے پر مارچ میں پارلیمنٹ ہائوس کے باہر دھرنا دیا جائے گا اور بھرپور تحریک چلائی جائے گی۔(بشکریہ جنگ)۔۔

hubbul patni | Imran Junior
hubbul patni | Imran Junior
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں