تحریر: اسعد نقوی
آج کل تقریباً ہر میڈیا ہاؤسز میں صحافیوں کا معاشی قتل عام جاری ہے ۔۔ کئی صحافیوں کو نوکریوں سے برطرف کیا جاچکا ہے۔ کئی اداروں میں صحافیوں کو کئی ماہ کی تنخواہیں نہیں ملیں ۔۔ صحافی برادری وجہ سے پریشان ہے ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ رہے ہیں۔ ان کے بچوں کو سکولوں سے نکال دیا گیا ہے ۔جہاں کھانے کے پیسے نہیں ہوں گے وہاں صحافی بچوں کی فیس کہاں سے دیں گے۔۔ اکثر چینلز نے پروگرام بند کرکے پروڈکشن ٹیموں کو نکال دیا اور باقی ٹیموں سے اضافی مشقت لی جارہی دوسری جانب اخبارات مالکان کے ایڈیٹوریل صفحات ۔کرائم ، صحت اور دیگر سپیشل ایڈیشن میں کمی کر کے سولہ صفحات کا اخبار بارہ صفحات پر منتقل کر دیا اور عملہ کو نکالنا شروع کر دیا ۔۔ جب صحافتی یونینز نے احتجاج کیا اور مذاکرات کیے تو میڈیا مالکان نے ایک چال چلی کہ حکومت نے ان کے اشتہارات کے پیسے نہیں دیے پیسے مل جائیں گے تو سب کے واجبات ادا کر دیے جائیں گے یوں میڈیا مالکان نے صحافتی یونینز سے کہا وہ حکومت سے اشتہارات کی رقم کا مطالبہ کریں ۔۔ ہماری صحافی برادری یوں میڈیا مالکان کی چال میں آگئی اور حکومت کے خلاف محاز کھول کر بیٹھ گئ ۔۔ جن صحافیوں نے میڈیا ہاؤسز کے باہر اپنے حقوق کی جنگ لڑنی تھی وہی حکومتی ایوانوں کے آگے احتجاج کرنا شروع ہوگئے ۔۔ اور اشتہارات کی رقم۔ مانگنے لگے تاکہ۔میڈیا ہاؤسز کو پیسے ملیں تو ان کو تنخواہیں ملیں ۔ ارے بھائیوں حکومت کا اپنا طریقہ کار ہوتا ہے جس میں وہ بل کلیر کرتے ہیں ۔ دوسری بات نہ تو کسی میڈیا ہاؤس میں مضاربہ نظام رائج ہے کہ قلم مزدور کی محنت اور مالک کا پیسہ ہو اور دونوں برابر کے حصہ دار ہوں نہ ہی ہمارا کوئی یونین لیڈر کارل مارکس ہے جو مارکسیت کے تحت آواز بلند کرے کہ اشتہارات میں ملنے والا پیسہ قلم مزدور یعنی صحافیوں کا ہے کیونکہ یہ پیسہ ان صحافیوں کی دن رات کی محنت کا نتیجہ ہے جو انہوں نے آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی کے بعد اضافی محنت کی۔۔ صحافی برادری کو نہ تو اشتہارات سے کچھ لینا دینا ہے نہ ہی اس میں۔ سے حصہ ملنا ہے ہم تو قلم مزدور ہیں پھر ہم کیوں اشتہارات کے لیے احتجاج کریں۔ہمیں تو بس ہماری طے شدہ مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ملنی چاہیے جہاں ایک طرف ہمارے صحافی سڑکوں پر احتجاج کر رہے تھے اسی وقت تمام میڈیامالکان وزیر اطلاعات فواد چودھری کے ساتھ مل کر تماشہ دیکھ رہے تھے اور دعوت اڑا رہے تھے ۔۔میڈیا مالکان سے کبھی کسی صحافی نے یہ نہیں پوچھا کہ اتنے برسوں سے جو کمایا اس کا حساب دو ۔ پھر آج کیوں اشتہارات کی مد میں ملنے والے پیسوں کا احتجاج صحافی کریں ۔۔۔۔صحافیوں کو ان کے حقوق دیں ان کے واجبات دیے جائیں۔۔۔(اسعد نقوی)۔