تحریر: فیض اللہ خان
پاکستانی ذرائع ابلاغ میں کراچی لاہور کی تجاوزات قائم ہیں اور انہی کیساتھ پشاور اسلام آباد کے چھوٹے چھوٹے خوانچے، ہمیں سوشل میڈیا پہ بھرپور مہم چلانی چاھئیے کہ گھوٹکی سکھر میر پور خاص ڈیرہ مراد جمالی سبی قلات ترتبت رکنی کلہ سیف اللہ ڈیرہ غازی خان تونسہ بھکر جہلم وزیر آباد کرک بنوں بونیر مانسہرہ کوہستان شانگلہ چلاس کاغان ہنزہ چترال اسکردو فیری میڈوز نیلم ویلی اور درہ خنجراب وغیرہ بھی پاکستان کا حصہ ہیں یہاں بھی کروڑوں پاکستانی بستے ہیں انکی بھی ہنسی ہے خوشی ہے غم ہے مسائل ہیں رواج ہیں رسوم ہیں کھانے ہیں کھیل ہیں ہزاروں برس پرانی تہذیب ہے موئن جو دڑو ہے ہڑپہ ہے سکندر اعظم کی نشانیاں ہیں اشوکا کے آثار ہیں مغلیہ سلطنت کی باقیات ہیں ۔
چینلز کے ڈیسک پہ (اکثریت ) نفسیاتی ردعمل اور بیوی سےلڑ کر آنے والوں کی ہے تو مکھی کی پیروی کرتے ہوئے گٹر پہ بیٹھنا پسند کرتے ہیں چینلز مالکان سے ہمیں درخواست کرنی چاھئیے کہ ان (مجھ سمیت) کی تربیت کا اہتمام کریں تاکہ ہمیں باقی ماندہ پاکستان بھی دکھائی دینے لگے اور ہم کم از کم کوریج کے معاملے ہی میں انہیں برابری کی سطح پہ لے آئیں (بقیہ حقوق ممکن ہے کہ ہماری اولادوں کو مل سکیں ) مالکان تک یہ بات بھی پہنچانے کی ضرورت ہے کہ رات میں چار ” توتیے ” ملکر جو پروگرام کرتے ہیں اس سے ہم تنگ آچکے ہیں برائے مہربانی پچاس لاکھ والے اینکر کو نکال کر اسکی جگہ پچاس پچاس ہزار کے پچیس رپورٹرز اور کیمرہ پرسن رکھ لیں تاکہ وہ یہ والا پاکستان اسوقت دکھا سکیں ۔
ساتھ ہی اپیل ہے کہ مقامی نمائندوں کی بھرپور پیشہ ورانہ تربیت ہو بہترین آلات انہیں فراہم ہوں ان علاقوں میں براہ راست نشریات کا اہتمام ہو تاکہ ہم خوبصورت پاکستان کو خوبصورت کیمرے کی آنکھ سے دیکھ سکیں ورنہ فیس بک یو ٹیوپ پہ چینلز سے لاکھ درجے بہتر کوالٹی کی دستاویزی فلمیں موجود ہیں ۔
امید ہے یہ تحریر مالکان تک پہنچے گی اور وہ اس پہ غور کریں گے ۔(فیض اللہ خان)