تحریر: محمد نواز طاہر
ٹی وی پر خبر چل رہی تھی کہ لاہور میں پیٹرول کی قلت ہوگئی ، اسی ٹی وی پر ایک تاجر کا بیان بھی چل رہا تھا ، ٹی وی کی خبر اور تاجر کا بیان ایک دوسرے کی ’ سچائی ‘ کو مات دے رہے تھے ، یعنی سچائی کی ماں دی سری۔۔۔۔ میں نے شہر کے مختلف علاقوں میں گھوم پھر کر دیکھا ، جہان ڈنڈا بردار تھے ، امن و امان کا مسئلہ تھا وہاں لوگوں نے اپنا کاروبار بچانے کیلئے احتیاطی تدبیر کے تحت پٹرول پمپ ہی نہیں چائے کا کھولکھا بھی بند رکھا ، باقی علاقوں میں پیٹرول پمپ بھی کھلے اور پیٹرول بھی مل رہا ہے ، بس اتنا ضرور ہوا ہے کہ کچھ فیول اسٹشن بند ہونے کی وجہ سے کچھ پمپ کھڑکی توڑ رش لے رہے ہیں ، کچھ پمپ معمول کے مطابق گاہک بھگتا رہے ہیں ۔۔ اب لیجئے تاجر صاحب کیا فرماتے ہیں۔۔۔ موصوف فرماتے ہیں کہ پچھلے چار روز سے کاروبار بند ہیں ، ہم ورکروں کو چالیس چالیس ہزار روپے تنخواہ دیتے ہیں کاروبار بند ہوگیا ، ورکروں کی تنخواہ کا بوجھ پڑگیا، اس کے ساتھ ہی موصوف نے سیاسی رنگ دکھا دیا ، میں وہ جملے استعمال نہیں کرنا چاہتا ، وہ پی ٹی آئی اور نون لیگ کا سیاسی جھگڑا ہے ۔ مجھے تو فقط یہ عرض کرنا ہے کہ کون سا دوکاندار اپنے ورکروں کو چالیس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دیتا ہے ؟ ارے بھائی میڈیا انڈسٹری سے بڑے لوگ معاشی قتلِ عام کا سامنا کررہے ہیں ، ان میں سے کچھ لوگوں کو اپنا معاون رکھ لو۔۔ ہم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ جب ہم جھوٹ ’فرماتے‘ ہیں تو لوگ ہمارا چہرہ بہتر طور پر پہچان لیتے ہیں اور وقت آنے پر ہماری خدمت میں ’لعنت ‘ پیش کرتے ہیں ، اور جب کوئی ہمارے ساتھ جھوٹ بولتا ہے تو ہمیں غصہ آتا ہے ۔ میڈیا مالکان معاشرے میں انارکی پھیلانے کا ایجنڈا ترک کیوں نہیں کرتے ؟ پھر جب ، اختیار ،ر طاقت اور ڈنڈے سے ’ احتجاج ‘کرتا ہے اور آپ کو روکتا ہے تو چیخیں نکلنا شروع ہوجاتی ہیں اور صحافت کی آزادی کو خطرہ پڑ جاتا ہے ۔
اس ملک کے شہری کب اپنا ، میرا اور آپ کا چہرہ پہچانیں گے ؟ ویسے پہچان چکے ہیں ، بس تھوڑا لحاظ برت رہے ہیں ۔ میڈیا مالکان معاشرے میں انارکی پھیلانے سے باز آجائیں ، جو آگ وہ دوسروں کیلئے لگارہے ہیں اس کا سیک ان تک بھی پہنچ سکتاہے، وہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں ، شہر میں آگ لگنے سے آپ جلیں گے نہیں تو دھویں سے ضرور دم گھٹ جائے گا اور پھر آپ بہت نازک طبع بھی ہیں ۔(محمد نوازطاہر)۔۔