media malikaan or bikao media persons

میڈیا مالکان ٹشو سمجتے ہیں اپنے ملازمین کو ۔۔۔

تحریر: جاوید صدیقی۔۔

گزشتہ دنوں اپنے کالم کیلئے ایک سطر سوشل میڈیا اور کئی معروف صحافیوں کو شیئر کیں وہ سطر یہ تھی۔ کیا میڈیا مالکان اپنے ملازمین کو ٹشو سمجھ کر استعمال کرکے پھینک دیتے ہیں تمام صحافی اس بابت کیا کہتے ہیں مجھے امید ھے کہ میڈیا پرسن اور صحافی دوست ضرور اپنے اپنے موقف سے آگاہ کریں گے کیونکہ صحافی نہ جھکتا ھے نہ بکتا ھے اور نہ ہی ڈرتا ھے سچ و حق بات کہنے بولنے اور لکھنے میں آپکی رائے کا منتظر رہونگا۔۔ اس سطر کو ہر ایک چھوٹے بڑے میڈیا ورکرز و صحافیوں نے پڑھا لیکن کئی ایک کو میں ذاتی طور پر بھی جانتا ھوں انھوں نے چپ سادھ لی حالانکہ تنہائی اور مخصوص نشت میں اس سطر کے ایک ایک لفظ کیساتھ ھوتے ہیں اور مالکان اور انکے ٹٹوؤں کو برا بھلا سخت سست اور شیطانی باپ دجالی فتنہ اور نجانے کیا کیا بولتے رہے ہیں انکی بزدلی اور منافقت بھی سامنے آگئی جبکہ غیر معروف چند ایک نے موقف دیئے اپنے قارئین کو یاد دلاتا چلوں کہ یہاں میڈیا مالکان سے مراد بڑے بڑے سٹلائٹ چینلز ہیں اور میڈیا پرسن و ملازمین و صحافی بھی وہ ہیں جو مالکان کے انتہائی قریب سمجھے جاتے ہیں جو ان مالکان سے بھاری فوائد بھی حاصل کرتے ھیں۔ اب میں اپنے قارئین کو بتاتا ھوں کہ مجھے شوشل میڈیا میں کیا کیا موقف حاصل ھوئے۔صحافی صغیر صاحب لکھتے ہیں کہ میرے محترم ھم سے زیادہ بہتر آپ جانتے ھیں کہ اجتماعی طور پر ماسوائے اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے کسی بھی  شعبہ ہائے زندگی میں بلا تخصیص رنگ و نسل سب سیاسی و مفاداتی وابستگیوں کے تحت ایک جان دو قالب ھیں اور غیر متزلزل اتفاق و اتحاد کی ناقابلِ تحلیل آہنی زنجیر میں  ملفوف مربوط ہیں اور انتہائی چابک دستی سے ھم عوام کا کاغذی شیرازہ گھانس پھوس کی طرح عصبیتوں کی فضاء میں بکھیر دیا ہے۔ اب آپ خود فیصلہ کریں کہ کیا ھوگا؟ جب یہاں نہ ایک  قوم ھے اور نہ ھی اخوت اسلامی؟ مزید کیا کہوں۔؟ عرض کیا ھے۔ نا سپاس  علم و فن تو بے ہنر رہ جائے گا۔ عجز سے لے کام لیکن  اس قدر سستا نہ بن؟ بحر کی آغوش میں بہتا ھوا تنکا نہ بن ۔۔۔۔ اسد زیدی صاحب موقف دیتے ھوئے لکھتے ھیں کہ اسلام و علیکم ایسا نہیں ہے جاوید بھائی ہر میڈیا ہاؤس کے اپنے رولز ہیں اور استعمال کا لفظ بھی درست نہیں ہے جب اپنی ڈیوٹی کررہے ہیں تو استعمال تو نہ ہووے نہ پھر سب کو اپنی رائے دینے کا اختیار ہے۔۔ ھمارے پرانے قلیق سعید بھائی نے ھماری تحریر پر کچھ حیرت و تعجب کا اظہار کرتے ھوئے لکھا کہ جاوید صاحب سلام مسنون۔ مزاج بخیر۔ جناب عالیٰ گذارش ہے کہ آپ یہ سب کیوں معلوم کرنا چاہتے ہیں کیا اخبار کا پیٹ بھرنے کیلئے آپ کو ایک کالم کی ضرورت ہے یا آپ اس معاملے پر کوئی سنجیدہ رائے رکھتے ہیں۔ آپ اپنے عزائم سے آگاہ کریں تاکہ اس اعتبار سے متاثرہ صحافی آپکے منصوبے کیلئے کوئی بہتر مواد فراہم کر سکیں۔۔ لاہور سے ھمارے دوست صحافی لکھتے ہیں کہ یہ سب سینئرز حضرات اور مفاد پرست صحافی بھائیوں کی نااہلی ہے کہ ورکرز کی آواز دبا دی جاتی ہے۔ ۔ثاقب صدیقی اپنے موقف میں لکھتے ہیں کہ میڈیا مالکان کیا زمانے کا دستور ہے استعمال کرو اور سائیڈ کرو جی ہاں بالکل ہر ادارے میں اسی طریقے سے ہوتا ہے چاہے میڈیا کا کوئی ادارہ ہو یا سرکاری، ورکر ہو یا ملازم اس کو صرف اور صرف استعمال کیا جاتا ہے، مگر ان سب باتوں میں میڈیا پرسن سب سے زیادہ استعمال ہوتے ہیں، مالکان کی پالیسی، ادارے کی پالیسی میڈیا پرسن کو مجبور کردیتی ہے، اس لئے وہ ٹشو پیپر بن جاتا ہے،۔۔ عارف انصاری اپنا موقف لکھتے ھوئے کہتے ھیں کہ معزرت کے ساتھ صحافی آجکل جتنا جھوٹ بولتے اور لکھتے اور دکھاتے ہیں۔ شاید ماضی میں ایسا نہیں تھا ریٹنگ اور پیسے کے لئے وہ قلم بیچ رہے ہیں۔ اسی لیئے صحافی کم پارٹی کارکن زیادہ ہیں اجکل ۔۔ عبدالمجید متنبہ کرتے ھوئے کہتے ہیں کہ پاکستان میں رہنا ھے تو منہ بند آنکھیں بند اور کان بند رکھنا ھوگا۔ثاقب صدیقی اپنے موقف میں لکھتے ہیں کہ میڈیا مالکان کیا زمانے کا دستور ہے استعمال کرو اور سائیڈ کرو جی ہاں بالکل ہر ادارے میں اسی طریقے سے ہوتا ہے چاہے میڈیا کا کوئی ادارہ ہو یا سرکاری، ورکر ہو یا ملازم اس کو صرف اور صرف استعمال کیا جاتا ہے، مگر ان سب باتوں میں میڈیا پرسن سب سے زیادہ استعمال ہوتے ہیں، مالکان کی پالیسی، ادارے کی پالیسی میڈیا پرسن کو مجبور کردیتی ہے، اس لئے وہ ٹشو پیپر بن جاتا ہے،۔۔فرحان خان اپنا موقف دیتے ھوئے لکھتے ہیں کہ میرے بھائی پاکستان میں سچ اور حق اور انصاف کی بات مت کریں اس پاکستان میں مناسب نہیں ۔۔۔ معزز قارئین!! اپنے اس کالم سے کم از کم یہ تو پتا چلا کہ جہاں جسٹس صاحبان سیسن مافیا کا ذکر کرتے ھیں ان پلرز میں یہ بھی شامل ھیں افسوس اور دکھ کیساتھ کہنا پڑتا ھے کہ پیمرا ادارہ ھونے کے باوجود پاکستانی نظام میں کوئی سٹلائٹ ریگولر اتھارٹی ادارہ نہیں گویا جس طرح نشیب و فراز ٹوٹ پھوٹ خستہ حال سڑک پر گاڑی چلتی ھو۔ پاکستان وہ بدقسمت ملک ھے جہاں میڈیا مالکان بے لگام اور اینکرز سوداگر صحافت اغواکاروں کے ہاتھوں میں گویا ہر سو ہر طرف زرد ہی زرد ھے۔ میڈیا انڈسٹری میں جاہل اوجھٹ سروں پے تاج سجائے اور قابل محنتی میڈیا پرسن ڈاؤن سائزنگ سے روڈوں پے۔ یہ سچ ھے صحافت گئی اب تیل لینے، مالکان کے اشارے پر کماؤ گھماؤ اور شور مچاؤ پروگراموں میں پھر مر جاؤ شہیدوں میں۔ جب سے میڈیا انڈسٹری کا قیام آیا ھے کبھی بھی ریاست نے میڈیا انڈسٹری کے مالکان اور بڑے بڑے انکے ملازمین کا نہ تو محاسبہ آڈٹ اور جائزہ لیا گیا یہی وجہ ھے کہ مالکان کی جانب سے بیشمار انتہائی بلند بے جا من پسندوں کی تنخواہیں اور مراعات کے دریچے کھلے رکھے اور انہیں لوگوں سے بڑے بڑے منفی کام بھی لیئے جاتے رھے ھیں پاکستان کی سیکیورٹی سلامتی امن و امان اور خوشحالی میڈیا انڈسٹری کے مالکان کو دائرے میں محدود رکھنا ھوگا بصورت پاکستان اور عوام تباہ کن حالات سے دوچار ھوتے رھیں گے۔ میڈیا انڈسٹری کا سرکار و جوڈیشل کی نگرانی میں سالانہ بنیاد پر آڈٹ ناگزیر ھوچکا ھے ۔۔۔(جاوید صدیقی)۔۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں