media malikaan or bikao media persons

میڈیا مالکان اور ملازمین کے مساوی حقوق

تحریر: جاوید صدیقی۔۔

آج میں اپنے کالم کو میڈیا انڈسٹری کے مالکان اور ملازمین کے حقوق پر بات کرونگا جس میں قرآن و سنت سے رہنمائی لیکر مالکان کے دماغ میں بٹھانا ہے کہ آپ کی دولت ہی کافی نہیں کیونکہ اس میں ملازمین کے خلوص سچائی ایمانداری لگن انتھک محنت کا بہت بڑا حصہ شامل ھوتا ھے بغیر آجر یعنی مالک کے ممکن نہیں کسی بھی ادارے کا قائم رہنا اور اسی طرح بغیر مزدور یعنی ملازم کے رہنا گویا آجر و مزدور کے باہم سے کوئی بھی ادارہ نہ صرف تشکیل پاتا ھے بلکہ پروان بھی چلتا ھے۔۔۔۔

معزز قارئین!! سابق جنرل و صدر پرویز مشرف وہ واحد فوجی افسر رہے جنھوں نے میڈیا کو انڈسٹری کا مقام دیتے ہوئے روزگار کا ایک وسیع و عریض دریچہ کھولا اپنے دور حکومت میں میڈیا کی اخلاقی و ریاستی پابندی کیلئے میڈیا کیلئے ایک ادارہ بنایا جسے پیمرا کہتے ہیں ان کے دور حکومت میں میڈیا میں روزگار تو میسر تھا لیکن بیروزگاری کا عمل نہیں البتہ جیو جنگ ذاتی عناد اور کچھ اینکرز بیرونی قوتوں کے تحت آئینی و ریاستی خلاف ورزی کے متکب ھوتے رہے جسے بلیک میلنگ کہتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے بعد جمہوری حکومتوں نے میڈیا انڈسٹری کو تباہ و برباد اور بیروزگاری کے طوفان کو ہوا دی بس پھر کیا تھا جھوٹے فاسق منافق اور دولت کے وحشیوں نے اپنے ملازمین کا بے دریغ بے دردی ظالمانہ و غیر قانونی طریقہ کار سے ملازمین کا معاشی قتل کرنا شروع کردیا خاص کر موجودہ حکومت کے آتے ہی ان مالکان نے بیروزگاری میں تمام انتہا ختم کردی کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ایک جانب یہ کہہ کر نکالتے جاتے کہ تنخواہوں کی مد میں رقم نہیں تو دوسری جانب نئے سے نئے پروجیکٹس شروع کردیئے۔ جیو سے لیکر اےآروائی تک ہر بڑے چینلز نے بلیک کو وائٹ کیا اےآروائی نے لاگو سمیت کھربوں مالیت کے کئی پروجیکٹس شروع کیئے۔ ہر چینلز کے مالکان نے فرنٹ مینوں جنمیں اینکرز اور بیورو چیف شامل ھیں لاکھوں تنخواہیں اور ان گنت مراعات دیکر حکومت اور ریاستی کو کبھی دباؤ میں لینا تو کبھی تلوے چاٹنے کا ٹاکس ملتا رھا کون سفر ھوئے وہ جو چینل میں انتھک محنت ایمانداری لگن اور کم تنخواہوں پر مامور تھے یوں سمجھیئے دلال آباد ھوگئے ہیں جو بہترین اور اعلیٰ دلالی کریگا وہی اب مراعات اور ترقی پائے گا اب تو حق و سچ بولتے میڈیا پرسن کانپتے ہیں۔ میرے ساتھ برسوں کام کرنے والے چھپ چھپ کر ملتے ہیں اور خوف زدہ رہتے ہیں کہ کہیں کوئی ساتھ دیکھ نہ لے کیونکہ میں حق و سچ کی بات کرنے میں مالکان میڈیا کو بھی تنقید کا نشانہ بناتا ھوں۔

کے پی سی کے ایک ممبر فون کے ذریعے بات کرتے ھوئے کہتے ہیں کہ جاوید صدیقی صاحب اب یہ دور سچ و حق کا نہیں کیونکہ سچ کڑوا ھوتا ھے نہ مالکان برداشت کرتے ہیں اور نہ ہی افسران رہی بات الله کی وہ مرکے دیکھیں گے نعوذبالله۔۔۔ معزز قارئین!! مولانا زبیراحمد صدیقی صاحب آجِر اور اجیر کے حقوق و فرائض کے متعلق لکھتے ہیں کہ اسلام دین فطرت ہے۔ اس پاکیزہ اور کامل دین نے دیگر طبقات کی طرح ’’آجر واجیر‘‘ اور ادائیگی حقوق وفرائض کا نہ صرف تعین کیا، بلکہ فریقین کو حقوق و فرائض کے حصول کی جانب متوجہ بھی فرمایا۔ ظاہر ہے کہ اگر فریقین اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی کی فکر میں ہوں اور ادائیگی و فرائض کے باوجود اپنی کوتاہی کا احساس دل میں رکھتے ہوں تو وہ دوسرے فریق کو اپنا محسن اور اپنے آپ کو کوتاہ متصور کریں گے۔آجر کے ذہن میں ہوگا کہ میں مزدور کے حقوق حقیقی معنوں میں ادا نہیں کرپا رہا، میرے رزق اور معیشت کا ذریعہ و سبب یہ مزدور اور ملازم ہیں،انہی کی بدولت میرا کاروبار اور کام رواں دواں ہے، حقیقت میں یہ اُن کی کمائی ہے جو میں اور میرا خاندان استعمال کررہے ہیں۔ میں جو کچھ انہیں معاوضہ دے رہا ہوں، ان کا حق اس سے بڑھ کر ہے۔ مجھے ان کے ساتھ حسنِ سلوک، مروت اور تواضع و عاجزی سے پیش آنا چاہئے، ان کے دکھ درد کو سمجھنا چاہئے، انکی خوشی و غمی میں شریک ہونا ہے، انکی مشکل کو حل کرنا ہے۔ یہ احساس ایسے آجر کو اجیروں اور مزدوروں میں یوں محبوب بنادے گا کہ مزدور ایسے آجر پر اپنی جان تک نچھاور کردیں گے اور وہ اسکے مال کے محافظ اور عزت کے رکھوالے ہونگے اگر مزدور کے دل و دماغ میں یہ تصور اُجاگر ہوجائے کہ رزق و معیشت کا ذریعہ آجر اور اسکا کاروبار ہے میں اپنی جن ذمہ داریوں کے عوض تنخواہ و مشاہرہ وصول کرتا ہوں، حقیقت میں وہ ذمہداریاں صحیح طور پر نہیں نبھا رہا، مجھے ملنے والے معاوضہ کا بوجھ اور حق میرے کندھوں پر  قائم ہے، میری عزت و روزگار میرے عمل اور میرے آجر سے قائم ہے، مجھے پوری دیانت و امانت اور قوت سے اپنے کام انجام دینا ہے۔ یقین کیجئے ایسے مزدور اور اجیر پر اس کا آجر و مالک اپنی جان چھڑکے گا اور اپنا تن من دھن اس پر قربان کرنا سعادت سمجھے گا۔ یہی اسلام کا کمال ہے کہ اس نے بجائے حقوق حاصل کرنے کی تحریک پیدا کرنے کے، ادائیگی فرائض کی تحریک پیدا کی ہے۔ آجر و اجیر کو اپنے فرائضِ منصبی کی طرف متوجہ فرمایا، حق تعالیٰ نے قرآن کریم میں اجیر یعنی ملازم و مزدور کے فرائض کو بیان فرمایا ہے۔ اجیر کے یہ فرائض دراصل آجر کےحقوق ہیں،ان فرائض کو قرآن کریم سے پیش کیاجارہا ہے: ترجمہ ’’اُن دو عورتوں میں سے ایک نے کہا:’’ابا جان! آپ انہیں اجرت پر کوئی کام دے دیجئے۔ آپ کسی سے اُجرت پر کام لیں تو اس کیلئے بہترین شخص وہ ہے جو طاقتور بھی ہو، امانت دار بھی۔‘‘(القصص۲۶) حضرت شعیب علیہ السلام کی دخترِ نیک اختر نے اپنے والد محترم سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ملازم و مزدور مقرر کرنے کی درخواست پیش کی اور ایک اچھے ملازم و مزدور کی خوبیاں بھی ارشاد فرمادیں، جنہیں قرآن کریم نے ان دو لفظوں میں بیان فرمایا ہے۔ القوی۔ الامین۔ واضح رہے کہ اجیر سے مراد گارہ، سیمنٹ، سریا، اینٹ اٹھا کردینے والے ہی نہیں، بلکہ وہ تمام لوگ اجیر کے زمرے میں شامل ہیں جو اپنی خدمات کا عوض وصول کرتے ہیں مثلاً جملہ سرکاری ملازمین، پرائیوٹ ملازمین، اسکولوں اور مدارس کے اساتذہ کرام و دیگر عملہ دکانوں، فیکٹریوں، ہوٹلوں اوراداروں میں کام کرنے والے لوگ کل وقتی ملازمین، جز وقتی ملازمین، منشی، محاسب اور خدّام وغیرہ سب اس میں شامل ہیں۔ دوسری خصوصیت قرآن کریم نے اچھے ملازم و مزدور کی ’’الامین‘‘ کے لفظ میں ذکر فرمائی۔ ملازم و مزدور کے فرائض میں ہے کہ وہ ہمہ قسم امانت و دیانت کا مرتکب ہو،مالک کے مال،رقم، اثاثہ جات، راز، کاروباری سکریسی وغیرہ میں امانت و دیانت کا مظاہرہ کرے، کسی بھی طور پر مذکورہ بالا امور میں خیانت نہ کرے آج کل بد قسمتی سے بد دیانتی، خیانت ناسور کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ بد دیانتی اور کرپشن کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوگیا ہے۔ امانت اور ایمان لازم و ملزوم ہیں، جیسا کہ رسول الله ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’وہ شخص ایمان والا نہیں جو امانت دار نہیں۔‘‘ آپ ﷺ نے ایک حدیث میں خیانت کو نفاق کی علامت قراردیا۔ خائن اور کرپٹ عناصر کیلئے آپ ﷺ نے روزِ محشر پیشگی طور پر اظہارِ برأت فرمادیا ۔چنانچہ ارشاد فرمایا: ’’میں تم میں سے کسی کو روز محشر اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ خیانت کا مرتکب ہوکر یوں کہے: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بچا لیجئے، میں نہیں بچا سکوں گا۔‘‘ ۔۔مشکوٰۃ شریف۔۔رسول الله ﷺ کا تعارف صادق و امین سے ہے۔ اسلئے چور، کرپٹ، خائن شخص کو محمدی کہلانے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ایک اچھےملازم و مزدور کو اپنے اندر امانت والا وصف پیدا کرنا ضروری ہے۔اسلام نے مزدور کےحقوق کے بارے میں سخت تاکید کی ہے صرف اجیر ہی نہیں شریعت مطہرہ نے ہر حق دار کے حق کی ادائیگی کو لازم قرار دیا۔ حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’اور لوگوں کو اُنکی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو اور زمین میں فساد مچاتے مت پھرو۔‘‘(الشعراء)حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے، وہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم ﷺ سے دریافت کیا، یارسول الله ﷺ، کون سا ایمان افضل ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، یہ کہ تو محض الله کیلئے کسی سے محبت کرے اور الله ہی کیلئے اس سے نفرت رکھے، اپنی زبان کو الله کی یاد میں لگائے رکھے۔ میں نے عرض کیا، اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا، تو لوگوں کیلئے وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے اور ان کیلئے وہ نا پسند کرے جو اپنے لئے نا پسند کرتا ہے۔۔۔۔ بخاری و مسلم۔۔۔۔

معزز قارئین!! مدینہ ثانی کے وفاقی وزیر نشرو اشاعت فواد چوہدری سمیت مدینہ ثانی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان مدینہ ثانی کے صدر مملکت عارف علوی اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد ان تمام معزز شخصیات کو لکھ چکا ھوں کالم بھی لکھے کہ خدارا ان میڈیا مالکان اور انکے بھاری دلالوں کا فی الفور احتساب لیا جائے انہیں سالانہ شفاف آڈٹ کا پابند کرایا جائے اور ہر ملازمین کی تنخواہ و مراعات کا پابند کراتے ھوئے اسکیل یا گروپ کا اجراء پر پابند رکھا جائے تاکہ توازن کے عمل ھونے سے بیروزگاری کا خاتمہ ممکن ھوسکے جنھیں ڈاؤن سائزنگ پر فارغ کیا گیا ھے انہیں دوبارہ روزگار پر بلایا جائے یا پھر دوسال کی تنخواہ یکمشت دی جائیں کیونکہ حکومت وقت نے ایک جانب کڑوروں کھربوں کی مد میں رقم فراہم کیں ہیں تو دوسری جانب ان سٹلائٹ چینلز کے شوشل میڈیا کے کمائے گئے کھربوں روپے کا بھی حساب لیا جائے۔ پاکستان اسلامی ریاست ھے انہیں پابند کیا جائے کہ اسلامی ریاست کے تمام تقاضوں کو پابندی کیساتھ عمل پیرا رہیں ایک شفاف ایماندار میڈیا ہی معیاری پروڈکٹس اور سچی و برحق خبروں سے آگاہ کرسکتا ھے۔۔۔۔(جاوید صدیقی)۔۔

How to write on Imranjunior website
How to write on Imranjunior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں