تحریر: جاوید صدیقی
ریٹائرڈ جنرل و سابق صدر پرویز مشرف نے اپنے ایمرجنسی دور میں بھی صحافت اور صحافتی دنیا کو نئے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کیلئے ایک آزادانہ منصفانہ اور حدود پر فروغ دینے کیلئے ایک ریگولیریٹری بنائی جسے پاکستان میڈیا ریگولریٹ اتھارٹی یعنی پمرا کہتے ہیں کا نیا باب شروع کیا اس کے ذریعے نجی چینلز ریڈیوز و دیگر کے لائسنس دیئے گئے جس سے ملک پاکستان میں ایک جانب میڈیا انڈسٹری کو فروغ ملا تو دوسری جانب لاکھوں شہری روزگار سے مستفید ھوئے لیکن افسوس کا مقام ھے کہ چند ایک میڈیا مالکان نے اس پلیٹ فارم کو غلط استعمال کیا جس میں بلیک منی کو وائٹ کئے گیا۔ جب سراغ رساں اداروں نے ریاستی اہم شخصیات کو بتایا تو ان چند ایک چینلز کی جواب طلبی کی گئی ھونا تو یہ چاہئے تھا کہ اپنے اوپر عائد الزامات کے رد میں ٹبوت کرتے لیکن الٹا ریاست کے خلاف پروپیگنڈہ کیا کہ صحافت پر قدغن لگایا جارھا ھے اور ایک طوفان بدتمیزی شروع کردیا۔ میڈیا انڈسٹری کو پھیلانے اور پڑوان چڑھانے کا مقصد مقتدر قوتوں اور پاکستان کے مخلصین کا یہ تھا کہ میڈیا انڈسٹری صحافتی اقدار میں رہتے ھوئے ریاستِ پاکستان کیلئے سودمند ثابت ھو مگر ایسا ھوتا ھوا نظر بہت کم آیا۔ اس کا جیتا جاگتا سب سے بڑا ثبوت میں خود ہوں۔ میں اپنے معزز قارئین کو بتاتا چلوں کہ سنہ دو ہزار پانچ میں حاجی حنیف گلیسی نے مجھے دعوت دی کہ پارٹنر شپ میں چینل لاؤنچ کرتے ہیں۔ حاجی حنیف گیلیکسی وہ شخصیت ہیں جو منی ایکسچینج کی دنیا میں بڑا نام رکھتے ہیں اور وہ گیلیکسی منی ایکسچینج کے مالک بھی ھیں۔ یہ مجھے مسجد میں لے گئے اور قسم کھاکر بتایا کہ وہ خالصتاً مذہبی چینل لاؤنچ کرکے ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تاکہ بعد موت بخشش کا ساماں بن سکے بحرکیف میں راضی ھوگیا اور لائسنس کی حصولی کے سلسلے میں قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے مجھ سے کئی خفیہ ایجنسیوں نے انٹرویوز کیئے آخر میں پیمرا کے نمائندگان کے انٹرویو کے بعد پیمرا سے اجازت نامہ اور لائسنس مل گیا اس کے بعد پاکستان سٹلائٹ یعنی پاک سیٹ سے فریکوئنسی حاصل کی اور اس طرح حق ٹی وی لاؤنچ ھوگیا بحیثیت وائس چیئرمین شب و روز محنت کرکے بلندی تک پہنچایا چند ماہ بعد ایک روز مجھے اچانک چیئرمین حاجی حنیف گیلیکسی نے اپنے روم میں بلایا اور کہا کہ میرا مقصد پورا ھوگیا میں نے جواب میں کہا ہاں ھم الحمدلله درس و تدریس کے پروگرام پیش کررہے ہیں اور دارالفتویٰ کے ذریعے مفتیان مسائل کے حل بھی پیش کررہے ہیں میری مزید بات کاٹتے ھوئے کہا کہ یہ میرا مقصد نہیں تھا میں حیرت و تعجب میں آگیا میرے منہ سے نکلا تو پھر وہ مسجد میں۔ حاجی نے کہا کہ میں کاروباری ھوں مجھے اپنے روپے پیسے سے مطلب ھے مسجد میں تمہیں راضی نہ کرتا تو تم راضی نہ ھوتے دراصل میری املاک امریکہ میں ھے نائن الیون کے بعد حالات بہت تیزی سے تبدیل ھوگئے ہیں میں چاہتا تھا کہ کسی طرح وہ املاک جسے میں بیچ چکا تھا اس کی رقم پاکستان لے آؤں اگر اپنی کمپنی گیلیکسی منی ایکسچینج کے ذریعے لاتا تو ایف آئی اے اور اسٹیٹ بینک پیچھے لگ جاتے میں نے اپنے کاروباری انتہائی قریبی دوستوں سے جب اس بابت مشورہ کیا تو انھوں نے کہا کہ تم چینل لاؤنچ کردو اس کے سہارے فرضی پارٹنر بنانا اور اس طرح تم وہ رقم منگوالینا سو میں نے ایسا ہی کیا اور اب میں وہ امریکہ میں پڑی اربوں ڈالرز رقم چینل کے توسط سے منگوالیئے ہیں اب مجھے چینل وینل کی ضرورت نہیں اسے جلد بیچ دونگا لہٰذا اب تم میری طرف سے فارغ ھو کل سے نہیں آنا۔۔۔۔معزز قارئین!! کئی وکیل سے اس بابت بات کی تو ان سب نے کہا کیس کرنے میں بہت رقم لگے گی تم ادا نہیں کرسکتے ویسے بھی وہ بہت دولتمند ھے بیکار ھے سر پھوڑنا پھر کئی سال بیت گئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے جب منصب سنبھالا تو کچھ پر امید ھوگیا کہ شائد اب میری سنائی ھوجائیگی پھر میں نے تمام واقعات تفصیلات کیساتھ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کے ساتھ ساتھ چیئرمین پیمرا۔ صدر پاکستان۔ وزیراعظم اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کو بھی خط لکھے مگر جیسے سب کے سب ہوا میں تحلیل ھوگئے ھوں آج تک انصاف کا منتظر ھوں۔۔۔۔
معزز قارئین!! ان حالات و واقعات کے بعد میں پیمرا پریم کورٹ اور پاکستان کے مخلصین مقتدر قوتوں سے یہی درخواست التجا عرض کرونگا کہ ملک و قوم کی خاطر سالانہ آڈٹ ان سب چینلز کا کرایا جائے تاکہ مصنوعی طور پر خسارہ ظاہر کرنے والے چینلز اپنے ملازمین کا معاشی قتل کرتے ہیں تو ممکن ھے حقیقت عیاں ھونے پر ایسا ممکن نہ ھوسکے اور مزید روزگار کے مواقع بھی میسر ھوسکیں۔۔۔ معزز قارئین!! یہ حقیقت ھے کہ کچھ مافیائی عناصر نے میڈیا انڈسٹری پر اپنا اثر رسوخ بڑھا دیا ھے کئی صحافیوں کی خرید و فروخت کی گئیں اور کئی بیورو چیف کو اپنا آلہ کار بناکر صحافت کو ضیافت کے ایندھن میں دھکیل دیا ھے اس میں اینکرز کا عمل بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔ اس مافیائی قوتوں نے خاص کر بڑے چینلز کو اپنا ہدف بنائے رکھا کیونکہ بڑے عزائم و مقاصد کیلئے بڑے چینل کے ذریعے ہی ممکن ھوسکتے ہیں ۔۔۔۔ معزز قارئین!! حالیہ دنوں میں جو چینلز اپنی اپنی راہ کو چل دیئے تھے ان میں صحافت کا جہاں جنازہ نکلا وہیں بدھو۔ بے وقوف ۔ صحافت سے عاری اور ان پروفیشنل کو منصب اعلیٰ کی ذمہ داریاں عائد کردی گئیں پھر کیا ھونا تھا چینل ایک بے ربط راہ کو نکل گیا۔ منافقوں۔ چمچوں۔ نا اہلوں کام چوروں۔ مفاد پرستوں۔ خود غرضوں۔ سازشی عناصروں کی چاندی ھوگئی ایسے ایسے جو کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہاں سے کہاں پہنچ گئے مگر افسوس قابل۔ ماہر۔ اہلیت والے منہ تکتے رہ گئے اور صحافت کے جنازہ کو دیکھ کر سوائے دکھی ھونے کو کچھ کہہ نہ سکے کیونکہ جب شرافت فروخت ھونے لگے تو دلالوں سے چھپنا ہی بہتر ھے۔۔
معزز قارئین!! حالیہ دنوں میں سیاسی کشمکش و دنگل میں ایک نجی چینل کے نااہل وائس پریزیڈینٹ نے اپنی نا اہلیت ثابت کردی جسے زمانے بھر میں خوب جگ ہسائی ھوئی۔ میں نے اس واقعہ پر تحریر کیا تو میرے دوست میرے سابقہ قلیق سے رھا نہ گیا سینئر صحافی، محسن رضا خان نے اے آر وائی نیوز کے سی ای او سلمان اقبال کو جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ “ایک پروفیشنل ہیڈ آف نیوز اویس توحید کو ‘نان پروفیشنل’ سے تبدیل کرکے، چیف ایگزیکٹو نے خود چینل کو ‘نان پروفیشنل’ بنا دیا تھا۔ ایک ٹویٹ میں محسن رضا خان نے سوال کیا کہ اے آر وائی کے نیوز ہیڈ عماد یوسف کو پی ٹی آئی کے بظاہر حوالے سے صرف ایک پارٹی کے بارے میں خبریں چلانے کی اجازت کس نے دی؟ انہوں نے کہا کہ انہوں نے پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کی گرفتاری کے حوالے سے ‘ڈرامہ’ رچایا ہوگا۔ ان کے مطابق، یہ ٹی وی چینل کا ‘نان پروفیشنل’ انداز تھا کیونکہ اے آر وائی یو کے نے خود کو 13 ہتک عزت کے مقدموں میں پایا، جس کی وجہ سے اے آر وائی یو کے کے صدر کو ملک بدر کرنا پڑا۔ قبل ازیں اے آر وائی نیوز کے سی ای او سلمان اقبال نے ایک ٹویٹ میں کہا: “ہم صحافی ہیں! آج یاد رکھیں۔ اگر ہم اس پر کھڑے نہیں ہوئے تو ہمیں ہمیشہ کیلئے خاموش ہو جانا چاہیے۔ سب کو بات کرنے کا پلیٹ فارم دیا، میں عدلیہ اور افواج پاکستان سے ایکشن لینے کی درخواست کرتا ہوں۔ وہ کراچی پولیس کی جانب سے عماد یوسف کی گرفتاری اور اپنے اور اینکر پرسن ارشد شریف، خاور گھمن اور عدیل راجہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کررہے تھے۔۔ معزز قارئین!! اس ٹیوئٹ میں سلمان اقبال سے مجھے دو نقاط واضع ملے ہیں۔ ایک یہ کہ میں صحافی ہوں وہ کس طرح اور کب صحافی بنے وہ چینل کے صرف مالک ہیں دوسرا یہ کہ عماد بن یوسف کو کیسے ڈائریکٹر نیوز بنادیا کیا اسے نیوز سینس ھے نیوز کے متعلق وہ نابلد اور نان پروفیشنل ھے ہاں البتہ میرے وقتوں میں پروفیشنل آئے ان میں ناصر بیگ چغتائی این بی سی صاحب۔ محسن رضا خان صاحب۔ مشتاق مشرقی صاحب۔ مظہر عباس صاحب۔ اویس توحید صاحب۔ فرحان رضا صاحب و دیگر اس نا اہل و نان پروفیشنل افسر عماد بن یوسف نے ان سب کیلئے رکاوٹ پیدا کیں اور رہنا مشکل کردیا۔ اپنا اندرونِ خانہ گروپ بنایا جن سے سازشیں اور مکارپن کرکے سلمان اقبال کی آنکھوں میں دھول جھونکتا رھا اس کا کردار اپنے ماتحتوں کیساتھ انتہائی خراب رھا ھے۔ یہ بد زبان۔ بد تمیز۔ بد لحاظ اور بداخلاقی اور بد کردار کا مالک ھے حقیقت تو یہ ھے کہ لوگ اس کی بد زبانی کی وجہ سے اپنی عزت بچاتے ہیں بحرحال یہ وہاں کے ملازمین کو سوچنا چاہئے کہ سلمان اقبال کے علم میں لائیں ظالم اتنا گناہگار نہیں ھوتا جتنا مظلوم ظلم سہنے والا ھوتا ھے۔۔۔ معزز قارئین!! یہ کسی صحافی کو زیب نہیں دیتا کہ چند مفادات کے تحت اپنی عزت فروخت کردے۔ صحافی وہی ھوتا ھے جو سچ و حق پر اپنی جان بھی دیدے۔ تاریخ رقم ھے کہ بیشمار غیور صحافیوں نے اپنے ضمیر کا تحفظ کیا اور شہید ھوگئے ایسے صحافیوں کی وجہ سے آج صحافت زندہ ھے۔۔۔۔ معزز قارئین!! بات صرف اےآروائی کی نہیں بلکہ یہ ھر چینل کی ذمہ داری ھے کہ وہ حقدار کی قدر کرتے ھوئے اس کو اسی کی قابلیت و اہلیت کے مطابق منصب عطا کریں یاد رکھیں میڈیا کسی بھی ریاست کا اہم ترین ستون ھوتا ھے اگر ستون ہی کمزور بنیادوں پر رکھا جائے تو وہ ریاستیں سنگین نقصان سے دوچار ھوتی ہیں۔ امید ھے کہ میڈیا انڈسٹری کے مالکان حب الوطنی اور شریعت کے اصولوں پر کاربند رہتے ھوئے اپنے اپنے چینلز میں منصفانہ و عادلانہ روئیوں کو فروغ دیں گے آمین ۔۔قائداعظم زندہ باد۔ پاکستان پائندہ باد ۔۔۔(جاوید صدیقی)
(اس تحریر کے مندرجات سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔